Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ایران مشرق وسطیٰ اور دوسرے ممالک کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے‘

سفارتکاروں نے زور دیا کہ تہران اور اس کے نیوکلیئر اور بلیسٹک میزائل پروگرام کے خلاف ’سخت موقف‘ اپنانے کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: عرب نیوز)
سفارتکاروں نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی جانب سے بلیسٹک میزائلوں کی تیاری خلیج عرب، مشرق وسطیٰ اور مغربی ممالک کے لیے ’ایک بڑا خطرہ‘ ہے۔
عرب نیوز کے مطابق امریکی شہر شگاگو میں جمعرات کو ہونے والی پریس کانفرنس سے خطاب میں قومی کونسل برائے مزاحمت کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ترجمان علی صفوی، سابق اطالوی وزیر خارجہ جیولیو ٹیرزی اور ٹرانس اٹلانٹک کے انسداد دہشت گردی کے پارلیمانی گروپ کے شریک جنرل سیکرٹری ولید پارس نے کہا کہ ’جوہری معاہدہ یمن، لبنان، عراق اور شام میں پراکسی ملیشیا کے ذریعے ایران کے عسکریت پسندوں کے حملوں کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔‘
سفارتکاروں نے زور دیا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور یورپی رہنماؤں کو تہران اور اس کے نیوکلیئر اور بلیسٹک میزائل پروگرام کے خلاف ’سخت موقف‘ اپنانے کی ضرورت ہے۔
ولید پارس، جو امریکی کانگریس کی انسداد دہشت گردی کے اجلاسوں کے ایڈوائزر بھی ہیں، نے کہا کہ ’ساری توجہ ہمیشہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو روکنے پر رہی ہے۔ لیکن ایرانی حکومت نے بلیسٹک میزائلوں جیسے خطرناک ہتھیار بھی تیار کیے ہیں جو یمن، لبنان، عراق اور شام کے ’چار میدان جنگ‘ میں استعمال ہو رہے ہیں۔
اس حوالے سےانہوں نے مزید کہا کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ گذشتہ پانچ سالوں میں حکومت نے ایسا طرز عمل دکھایا ہے اور وہ اسے جاری رکھے ہوئے ہے جس سے ایران، اس کے عوام، مشرق وسطیٰ، یورپ، امریکہ اور بین الاقوامی برادری کو خطرہ لاحق ہے۔‘
جبکہ سابق اطالوی وزیر خارجہ جیولیو ٹیرزی نے ایران کے ساتھ 2015 میں ہوئے نیوکلیئر معاہدے کو ’ایک ناقص معاہدہ‘ اور ’مکمل ناکامی‘ قرار دیا۔
انہوں نے بتایا کہ امریکی صدر جو بائیڈن ایک ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جس کے تحت حوثیوں جیسے پراکسی گروہوں کی جانب سے ہونے والے حملوں کا خاتمہ ہو گا اور صورتحال مزید خراب ہونے سے بچائے گی۔

شیئر: