شام اور لبنان کے لیے امریکہ کے ایلچی ٹام بیریک نے شام کی نئی حکومت کی حمایت بڑھانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکام کے ساتھ مل کر کام کرنے کے حوالے سے کوئی ’پلان بی‘ نہیں۔
ٹام بیریک جو ترکیہ کے سفیر بھی ہیں، نے بیروت میں خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شام کی نئی حکومت کے ساتھ تعاون کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ملک ابھی تک 14 سال کی خانہ جنگ کے اثرات سے نہیں نکل سکا جبکہ فرقہ وارانہ تشدد سے بھی تباہی ہو رہی ہے اور اس کے حکام کے ساتھ مل کر اسے اتحاد کی طرف لانا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھیں
انہوں نے اسرائیل کی جانب سے شام میں کی جانے والی مداخلت کے بارے میں تنقیدی لہجہ اختیار کرتے کہا کہ اس سے خطے کو استحکام کی طرف لانے کی کوششیں پیچیدہ ہو گئی ہیں۔
ٹام بیریک کا یہ موقف جنوبی صوبے سویدا میں ایک مذہبی اقلیت کی دروز ملیشیا اور سنی مسلم قبائل کے درمیان ایک ہفتے سے زائد تک جاری رہنے والے جھڑپوں کے بعد سامنے آیا ہے۔
اس لڑائی میں سینکڑوں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں اور شامی حکومت کی مداخلت کے بعد دونوں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔
اس دوران اسرائیل نے دروز قبائل کی طرف شام میں مداخلت کی، دروز قبائل کو اسرائیل کے قریب سمجھا جاتا ہے اور اس کے افراد اسرائیلی فوج میں اکثر خدمات بھی انجام دیتے ہیں۔
اسرائیل نے سویدا میں سرکاری فوج کے قافلوں پر درجنوں حملے کیے اور دمشق کے وسطی علاقے میں واقع وزارت دفاع کے ہیڈکوارٹر کو بھی نشانہ بنایا۔
ہفتے کے آخر میں ٹام بیریک کی جانب سے شام اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا تاہم مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی تھی۔

تاہم اس کے بعد بھی ہونے والی جھڑپوں کے بعد شامی حکومت نے سویدا میں فوج تعینات کر دی ہے اور پیر کو وہاں سے لوگوں کو نکالا جانا تھا۔
ٹام بیریک نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ دونوں طرف سے قتل و غارت اور انتقامی کارروائیاں ناقابل برداشت ہیں۔
شامی حکومت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’میری رائے میں یہ ایک نوزائیدہ حکومت کے طور پر بہترین انداز میں آگے بڑھ رہی ہے اور کم وسائل کے باوجود مسائل حل کر سکتی ہے جو ایک متنوع معاشرے کو متحد کرنے کی کوشش میں کھڑے ہوتے ہیں۔‘
اسرائیلی حملوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ سے نہیں پوچھا گیا اور نہ اس فیصلے میں حصہ لیا اور نہ ایسے معاملات امریکہ کی ذمہ داری ہیں جو اسرائیل اپنے دفاع کے حوالے سے محسوس کرتا ہے۔
تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’اسرائیل کی مداخلت نے پیچیدگی کے ایک نئے باب کو جنم دیا اور یہ بہت برے وقت میں ہوا۔‘
سویدا میں لڑائی سے قبل اسرائیل اور شام کے درمیان دفاعی معاملات پر بات چیت چل رہی تھی جبکہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ بھی ان پر دباؤ ڈال رہی تھی کہ وہ سفارتی طور پر معمول کی طرف آئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب لڑائی کی تازہ لہر شروع ہوئی تو اسرائیل کا خیال تھا کہ یہ دمشق کے جنوب میں واقع قابل اعتراض علاقہ ہے اور وہاں فوجی طور پر جو کچھ بھی ہوا اس پر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شام اور اسرائیل کے درمیان سنیچر کو ہونے والی جنگ بندی کا معاہدہ سویدا کی لڑائی کے حل تک محدود ہے۔
ان کے مطابق یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دوسرے وسیع تنازعات کے حل سے متعلق نہیں ہے۔