Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمیں سرکاری اپوزیشن کہنا نامناسب ہے: یوسف رضا گیلانی

اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ انھیں 28 ارکان کی حمایت حاصل تھی (فوٹو: مسلم لیگ ن میڈیا )
پی پی کے سینیئر رہنما اور آج ہی سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر مقرر ہونے والے سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ہمیں ’سرکاری اپوزیشن‘ کہنا نامناسب ہے۔
جمعے کو بطور اپوزیشن لیڈر مقرر ہونے کے بعد اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کا نام لیے بغیر ان کی تنقید کا جواب دیا اور کہا کہ  ایسی باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔
آج ہی احسن اقبال نے چند ٹویٹس میں پی پی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ بقول یوسف رضا گیلانی کے وہ  پی ڈی ایم کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
سید یوسف رضا گیلانی کا مسلم لیگ ن اور پی پی کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’ہمارے درمیان مولانا فضل الرحمان کی کوششوں سے چند دن پہلے سیز فائر ہوا تھا۔
ان کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے بلاول بھٹو اور مسلم لیگ ن کی قیادت سے رابطہ کر کے بیان بازی سے باز رہنے کی درخواست کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ وہ پی ڈی ایم کی جماعتوں سے ملنے جائیں گے اور ان کو اعتماد میں لیں گے۔

قائد حزب اختلاف کا نوٹی فیکیشن

جمعے کو سینیٹ سیکریٹیریٹ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید یوسف رضا گیلانی کو قائد حزبِ اختلاف مقرر کرنے کا باضابطہ نوٹی فیکیشن جاری کر دیا ہے۔ نوٹی فیکیشن کے مطابق یوسف رضا گیلانی کی نامزدگی کا اطلاق جمعہ 26 مارچ سے ہوگا۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے معاملے پر پی ڈی ایم کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ایک بار پھر تنازع پیدا ہوگیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے سینیٹ میں 30 ارکان کی حمایت کے ساتھ یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کے لیے درخواست جمع کرائی تھی جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ اسے 28 ارکان کی حمایت حاصل تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سید یوسف رضا گیلانی نے دیگر سینیٹرز کے ہمراہ جمعے کے روز چیئرمین سینیٹ کے پاس 30 سینیٹرز کے دستخطوں پر مبنی درخواست جمع کرائی۔
درخواست میں کہا گیا کہ پیپلز پارٹی کو اپوزیشن کے اکثریتی ارکان کی حمایت حاصل ہو گئی ہے لہٰذا سید یوسف رضا گیلانی کو قائد حزب اختلاف مقرر کیا جائے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے درخواست جمع کرانے کے معاملے پر مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے ٹویٹ کی اور کہا کہ ’اسی کے پاس عرضی لے کر پہنچ گئے جس کے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کو عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے،کچھ مناسب نہیں لگا۔‘
بعد ازاں لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں احسن اقبال نے پیپلز پارٹی کے رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سے پی ڈی ایم کے مقاصد، جدوجہد اور اعتماد کو دھچکہ لگا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مخصوص یا سرکاری سینیٹرز کے ذریعے اپوزیشن لیڈر بننا اپوزیشن کے تشخص کے لیے بڑا سوالیہ نشان ہے۔‘
مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل کے مطابق ’عوامی نیشنل پارٹی نے بھی پی ڈی ایم میں کیے گئے فیصلے کی خلاف ورزی کی، یہ معاملہ پی ڈی ایم کے آئندہ اجلاس میں اٹھایا جائے گا۔‘
دوسری جانب اس سے قبل سید یوسف یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے سید قاسم گیلانی نے بتایا تھا کہ ’پیپلز پارٹی کے اپنے 21، اے این پی کے دو، جماعت اسلامی کے ایک، فاٹا کے دو اور سینیٹر دلاور خان کی سربراہی میں بننے والے چار آزاد ارکان کے نئے گروپ نے یوسف رضا گیلانی کی حمایت کر دی ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’سینیٹر دلاور خان پہلے دن سے سید یوسف رضا گیلانی کے حمایتی اور ووٹر ہیں۔‘
ایوان بالا میں اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ن کا بھی دعویٰ ہے کہ انھیں 28 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
ان میں مسلم لیگ ن کے اپنے 17، جے یو آئی ف کے 5، بی این پی مینگل کے 2 اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 4 ارکان شامل ہیں۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے دعوؤں کے بعد 99 ارکان کے ایوان میں سے اپوزیشن کی تعداد 58 جبکہ حکومت کی تعداد 41 ہے۔
چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں چیئرمین کے حکومتی امیدوار صادق سنجرانی 48 جبکہ اپوزیشن کے یوسف رضا گیلانی 42 ووٹ حاصل کر سکے تھے جبکہ سات ووٹ مسترد کر دیے گئے تھے۔
اسی طرح ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں حکومتی امیدوار مرزا محمد آفریدی کو 54 جبکہ ان کے مدمقابل پی ڈی ایم کے غفور حیدری 44 ووٹ حاصل کر سکے تھے۔

شیئر: