Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایف آئی اے کے چھاپوں سے کیا چینی کا بحران پیدا ہو گا؟

مبصرین کے خیال میں آنے والے دنوں میں چینی کا بحران مزید شدت اختیار کرے گا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں آج کل چینی حکومت کے مقرر کردہ نرخوں سے زیادہ فروخت ہو رہی ہے۔ جس کو واپس حکومتی نرخوں پر مقرر کرنے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے چینی ڈیلروں کے خلاف ایک آپریشن شروع کر رکھا ہے۔
ان چھاپوں سے چینی کی سپلائی لائن متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ تاہم حکومت کا ماننا ہے کہ اس سال جولائی تک ایسا نظام وضع کر دیا جائے گا کہ چینی کی سپلائی لائن ڈیلروں کے ہاتھ سے متاثر نہیں ہوں گی۔ 

ایف آئی اے کا آپریشن:

وفاقی تحقیقاتی ادارے کا کہنا ہے کہ کئی ایک بڑے سٹہ گروپوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور 10 ایف آئی آرز درج ہو چکی ہیں جن میں درجنوں ایسے افراد کو نامزد کیا گیا ہے جو شوگر ملوں سے ہزاروں ٹن چینی خرید کر اور پھر اسے مارکیٹ میں مہنگے داموں بیچ کر مصنوعی مہنگائی پیدا کر رہے تھے۔
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر محمد رضوان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’یہ ایک بہت بڑا مافیا ہے جو منظر عام پر آیا ہے۔ اور ایف آئی اے اس وقت متحرک ہے ہماری 20 ٹیمیں مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والوں کے خلاف تحقیقات کر رہی ہیں۔ ایک ہفتے میں ایک درجن سے زائد چھاپے مارے گئے ہیں جن میں کئی افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔ ملتان سے لے کر راولپنڈی تک یہ گروہ متحرک تھے۔‘
انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ کئی بڑی شوگر ملیں بھی ان سٹہ بازوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ ’ہم نے 20 موبائل فون اور لیپ ٹاپ پکڑے ہیں جن میں ایسی ہزاروں الفاظ پر مشتمل بات چیت ہے جو اس سارے عمل کو سمجھنے میں مدد دے رہی ہے۔ یہ تمام ڈیوائسز اس وقت فرانزک کے لیے بھجوائی جا چکی ہیں۔ جلد یہ قانونی شہادت میں تبدیل ہو جائیں گی۔ تو جو شوگر ملز بھی اس میں ملوث ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ ابھی مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔‘

پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ڈیلرز کا موقف:

پاکستان شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن نام کی ایک تنظیم نے ملک کے اخباروں میں ایک اشتہار جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم خود انہیں بلا کر ان کے مسائل سنیں۔ جس طریقے سے ایف آئی اے گھروں میں گھس کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کر رہی ہے وہ خلاف قانون ہے۔ اس اپیل میں چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی کچھ اسی طرح کی گزارشات کی گئی ہیں۔ اس اشتہار کے نیچے صرف فون نمبرز دیے گئے ہیں اور کوئی نام نہیں دیا گیا۔ جن میں سے اکثر فون بند ہیں۔
راولپنڈی کے ایک ڈیلر فضل احمد سے جب اردو نیوز نے رابطہ کیا تو انہوں نے کچھ اور طرح کی کہانی سنائی ’ہم ڈیلر ویسے نہیں ہیں جیسا میڈیا پر یا حکومت ہمیں بتا رہی ہے۔ آپ کو یہ بات سمجھنے کے لیے یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم کام کیسے کرتے ہیں۔ ہم مارکیٹ سے آرڈر اٹھاتے ہیں اور شوگر ملوں سے چینی اٹھاتے ہیں ۔ ایک بوری کے پیچھے 10 سے 20 روپے سے زیادہ ہم نہیں کماتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ڈیلرشپ کو کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں۔ کئی دفعہ حکومت کو کہا ہے ایف بی آر سے ملے ہیں کہ اس کاروبار کو رجسٹرڈ کیا جائے۔ لیکن حکومت نے کوئی طریقہ وضع نہیں کیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’چینی کی خرید وفروخت پر ساڑھے چار فیصد ودہولڈنگ ٹیکس ہے۔ یعنی اگر آپ جتنی مرضی چینی خریدیں اگر اس کی انوائس بنائیں گے تو اس کا ٹیکس دینا ہو گا۔ ایک ڈیلر بوری پر 20 روپے کما رہا ہے ٹیکس تین سو روپے بن رہا ہے اسی بوری پر تو وہ تو یہ کام کر ہی نہیں سکتا۔ اس کے لیے ظاہر ہے بے نامی اکاؤنٹ استعمال کیے جاتے ہیں اور یہ سب 70 سال سے ایسے ہی چل رہا ہے۔ چینی کی قلت یا قیمتیں بڑھی ہیں تو اس میں ایک بڑی وجہ چینی کو ایکسپورٹ کرنا تھا۔ جس طبقے کو اس وقت نشانہ بنایا جا رہا ان کا رول 20 روپے سے زیادہ ہے ہی نہیں۔‘

پاکستان شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن نے ایک اشتہار کے ذریعے کہا ہے کہ وزیر اعظم خود انہیں بلا کر ان کے مسائل سنیں (فوٹو: اے ایف پی)

پنجاب کی ایک بڑی شوگر مل کے مالک (جنہوں نے اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کیا)  نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’حکومت غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔ کیا چینی خریدنا اور بیچنا غیر قانونی کام ہے؟ جن لوگوں کو پکڑا جا رہا ہے وہ صرف یہی کام کرتے ہیں۔ اگر یہ کہتے ہیں ایسے اکاؤنٹ پکڑے ہیں جو بے نامی تھے تو یہ تو صرف ایف بی آر کا کام ہے۔ ایف آئی اے یہ سب کیوں کر رہا ہے؟‘
’جہاں تک شوگر ملز مالکان کا تعلق ہے تو ہم اگر چینی بنا رہے ہیں اور تو کیا ہم بیچیں گے نہیں تو کیا اخبار بیچیں گے؟ ایک خاص طریقے سے انڈسٹری کو ختم کیا جا رہا ہے۔ پورے پاکستان میں کل 80 ملیں جن کے 35 مالکان ہیں اور اتنے ہی ڈیلر ہیں ان میں سے 10 پر تو پرچے درج کر دیے گئے ہیں۔ ہمیں نہیں پتا حکومت کیا کرنے جا رہی ہے۔‘
دوسری طرف پانچ دنوں میں 11 روپے چینی کی قیمت بڑھی ہے۔ اکبری منڈی میں اس وقت ایک سو چھ روپے کلو چینی ہول سیل میں فروخت ہو رہی ہے۔ جبکہ کئی تاجروں نے کام بند کر دیا ہے۔
مبصرین کے خیال میں آنے والے دنوں میں چینی کا بحران مزید شدت اختیار کرے گا۔ 

شیئر: