Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انٹرنیٹ کی بندش: روزگار کے ساتھ ’زندگی اور موت کا مسئلہ‘

ڈاکٹر فیصل رشید خان کے مطابق گزشتہ سال کورونا کے بعد ان کے 70 فیصد مریض ان سے آن لائن طبی مشورہ لیتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں مذہبی جماعت تحریک لبیک کے احتجاج کے باعث ایک بار پھر ملک کے مختلف علاقوں میں شہریوں کو موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس کی بندش کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے 12 اپریل کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو ارسال کیے گئے مراسلے میں ترنول، فیض آباد، روات ٹی چوک، ترامڑی چوک، اسلام آباد ایکسپریس وے اور اٹھال چوک بارہ کہو کے علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بند کرنے کی درخواست کی گئی۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان میں امن و امان کی صورت حال کے باعث انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند کی گئی ہو۔ حکومتی حلقوں کا موقف ہے کہ ’انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی بندش سے شرپسند افراد کے رابطوں کو منقطع کیا جاتا ہے تاکہ امن و امان برقرار رکھا جا سکے۔‘

 

 تاہم پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ ’کل سوچ ڈاٹ کام‘ کے مطابق گذشتہ نو برسوں میں سینکڑوں بار ملک میں انٹرنیٹ سروس بند کی جا چکی ہے اور صرف گذشتہ سال ہی کم ازکم 12 مرتبہ یہ بندش دیکھنے میں آئی۔‘

کورونا وبا کے بعد انٹرنیٹ بندش زندگی موت کا مسئلہ کیوں؟

اب انٹرنیٹ صرف گوگل سرچ یا تفریح کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ اوبر اور کریم جیسی ٹیکسی سروس سے لے کر آن لائن تعلیم، طبی امداد اور روزگار کے لیے بھی استعمال ہو تا ہے اس لیے اس کی بندش بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور کی جاتی ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد کے ایک بڑے ہسپتال کے شعبہ نفسیات سے وابستہ ڈاکٹر فیصل رشید خان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کورونا وبا کے بعد ان کے 70 فیصد مریض ان سے آن لائن طبی مشورہ لیتے ہیں۔ صرف 30 فیصد مریض بالمشافہ مشورے کے لیے آتے ہیں۔
’اگر انٹرنیٹ سروس بند کر دی جائے تو نہ صرف میری آمدنی بری طرح متاثر ہوگی بلکہ اتنے سارے مریض طبی سہولت سے محروم ہو جائیں گے خاص کر اسلام آباد سے دور رہنے والے افراد مستفید نہیں ہو سکیں گے۔‘
اسلام آباد کے علاقے فراش ٹاون میں مقیم خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ وہ پِتے کے عارضے میں مبتلا ہیں اور شہر کے ایک پوش علاقے میں واقع کلینک میں خود جا نہیں پاتے تو واٹس ایپ پر اپنے ڈاکٹر سے ادویات کے حوالے سے مشورہ کر لیتے ہیں۔ ’اگر موبائل سروس معطل ہو جائے تو مریضوں کے لیے یہ زندگی موت کا مسئلہ بھی بن سکتا ہے‘۔
اسلام آباد کے نجی ہسپتال کے ڈاکٹر عمر قریشی اپنے مریضوں کا ایک بار معائنہ کرنے کے بعد ان کی رپورٹس آن لائن چیک کر لیتے ہیں اور آن لائن ہی انہیں دوا تجویز کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر کسی علاقے میں موبائل سروس معطل ہو تو ان کا اور مریض کا رابطہ منقطع ہو جائے گا۔
ڈاکٹرز کے مطابق پاکستان کی حکومت جب فائیو جی سروس متعارف کروائے گی تو انٹرنیٹ کے ذریعے موبائل سرجریز تک کی جائیں گی ایسے میں موبائل فون کی بندش انسانی جان کے لیے خطرہ بن جائے گی۔

صارفین کی حقوق کی تنظیم کے سربراہ شہزاد احمد کے مطابق کورونا کی صورتحال میں تعلیم، صحت اور دیگر شعبے آن لائن ہو گئے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

انٹرنیٹ سروس کی بندش انسانی حقوق کا مسئلہ

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق اس سال پاکستان میں براڈ بینڈ صارفین کی تعداد 10 کروڑکے تاریخی سنگ میل پر پہنچ گئی ہے اور ملک کی 87 فیصد آبادی کو انٹرنیٹ / براڈ بینڈ خدمات تک رسائی حاصل ہے۔ اس صورتحال میں کروڑوں لوگوں کا روزگار موبائل فون سروس سے وابستہ ہو گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق امن وامان حکومت کی ذمہ داری ہے اور لوگوں کو باعزت روزگار کے مواقع فراہم کرنا بھی ایک ریاستی ذمہ داری ہے۔ تو کیا امن وامان بہتر کرنے کا کیا واحد طریقہ انٹرنیٹ سروس بند کرکے عام آدمی کا روزگار چھین لینا ہی ہے؟
پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم بائٹس فار آل کے سربراہ شہزاد احمد کے مطابق کمیونیکیشن انسان کا بنیادی حق ہے۔ ’موجودہ دور میں ایک غریب مزدور اور رکشے والے سے لے کر چیف ایگزیکٹو تک کا کاروبارِ زندگی موبائل فون پر چلتا ہے۔ جب حکومت موبائل سروس بند کرتی ہے تو ہزاروں لاکھوں افراد اپنی آمدنی سے محروم ہو جاتے ہیں اس کی ذمہ داری کون لے گا۔ حکومت قومی سلامتی یا امن وامان کا مسئلہ کہہ کر ان کا روزگار کیسے چھین سکتی ہے؟‘
شہزاد احمد کے مطابق ماضی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں قرار دیا تھا کہ انٹرنیٹ کا شٹ ڈاؤن نہیں ہونا چاہیے تاہم پی ٹی اے نے وہ فیصلہ چیلنج کر دیا تھا۔
شہزاد احمد کے مطابق کورونا وبا کی صورتحال میں خاص طور پر تعلیم، صحت اور دیگر شعبے آن لائن ہو گئے ہیں جبکہ دفاتر میں ورک فرام ہوم (گھر سے کام) کا کلچر پیدا ہوا ہے اس لیے انٹرنیٹ کی بندش سے یہ تمام شعبے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔

شیئر: