Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم: تبدیلی در تبدیلی

شوکت ترین کی وزیراعظم سے ملاقات میں وہ پی ٹی آئی کی چادر اوڑھے نہیں نظر آئے (فوٹو: شوکت ترین فیس بک)
شاید وزیر بھی بھول چکے ہوں کہ وہ کس چیز کے وزیر تھے! 
وفاقی کابینہ میں تبدیلیوں کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے۔ اس میں سوائے وزارتِ خزانہ کے باقی تبدیلیاں تو انگریزی محاورے کے مطابق ’جتنا چیزیں بدلتی ہیں اتنا ہی وہ اپنی حالت برقرار رکھتی ہیں‘، کی عملی تصویر ہیں۔
اصل میں تو وزرا کے دفتر ہی تبدیل ہوئے ہیں ورنہ یہ بھی واضح نہیں کہ تبدیل ہونے والے وزرا کو انعام ملا ہے یا سزا۔ سابق وزیر اطلاعات شبلی فراز بہرحال اسی طرح خوش و خرم ہیں گویا کسی سخت مشکل سے باہر آئے ہوں۔ عمر ایوب، خسرو بختیار، رزاق داؤد کو شاید اب خود بھی بھول جاتا ہو کہ کس چیز کے وزیر تھے اور اب کس کے ہیں۔  

 

حماد اظہر البتہ بارہویں کھلاڑی کا کردار خوب نبھا رہے ہیں۔ خزانہ، ریونیو، اقتصادی امور، انرجی، ہر پوزیشن پر جاتے ہیں اور سکور کرنے سے پہلے ہی واپس بلا لیے جاتے ہیں۔
وزرات خزانہ تو گویا پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان گردش کر رہی ہے۔ دو دفعہ پی ٹی آئی نے چلانے کی کوشش کی مگر ایک بار پھر زرداری کے وزیر خزانہ کو واپس مل چکی ہے۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ پیپلز پارٹی کی معاشی پالیسی اب پی ٹی آئی لاگو کرے گی؟ اس کا جواب وزیراعظم ہی دے سکتے ہیں۔  
شوکت ترین کی وزیراعظم سے ملاقات میں وہ پی ٹی آئی کی چادر اوڑھے نہیں نظر آئے، یا پھر وہ دل سے ہی پی ٹی آئی کے ممبر بن چکے ہیں۔ وزیراعظم نے یہ خبر ضرور سنائی کہ شوکت ترین شوکت خانم ہسپتال کے بورڈ کے ممبر رہ چکے ہیں۔
حفیظ شیخ صاحب ایک روز چھ سال کے لیے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر سینیٹر بن رہے تھے اور اگلے روز یہ بھی نہیں پتا کہ ملک میں ہیں یا بدیس سدھارے۔
 شوکت ترین کا تو فی الحال چھ ماہ کا ٹیسٹ پیریڈ ہے اس کے بعد ان کو مستقل کیا جاتا ہے یا نہیں، یہ بھی واضح نہیں۔   
آدھا حکومتی عرصہ گزر چکا ہے۔ جتنی تبدیلیاں حکومتی کابینہ میں ہوئی ہیں اتنی کسی کمپنی میں ہوں تو وہ بھی ڈوبنے کے قریب پہنچ جائے۔ اب تک نہ ٹیم واضح ہے اور نہ ہی پالیسی۔
کرکٹ کی مثال استعمال کرتے ہوئے اب اگر عام زبان میں کہا جائے تو لوگوں کی بس ہو چکی ہے۔ کپتان، ٹیم، اوپننگ بیٹسمین وغیرہ کا بار بار ذکر اب بوجھل بلکہ تکلیف دہ لگنا شروع ہو گیا ہے۔

حفیظ شیخ صاحب ایک روز چھ سال کے لیے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر سینیٹر بن رہے تھے (فوٹو: اے پی پی)

حکومتیں استحکام اور مستقل مزاجی سے چلتی ہیں۔ ایک عہدے میں تبدیلی کا مطلب ہے تین سے چھ ماہ تو صرف نئی پالیسی مرتب کرنے میں لگیں گے۔
 شبلی فراز نے بڑی سادگی سے یہ کہہ کر کہ چاند کا اعلان ان کی وزرات کا کام نہیں، فواد چوہدری کے کریڈٹ پر پانی پھیر دیا۔ اب وہ جب تک وزارت کو اپنے ویژن کے مطابق نیا رخ دیں گے اس وقت تک حکومت کے اختتام میں ایک سال رہ جائے گا ۔ ممکن ہے اس وقت ان کی جگہ ایک نئے وزیر کا تقرر ہو جائے۔ 
سرپرائز اور جھٹکے کسی نظام کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہوتے ہیں۔ تبدیلی وہ نہیں جو بار بار عہدوں میں کی جائے۔ تبدیلی وہ ہے جو ترقی کی صورت میں نظر آئے۔
اب شاید وقت آگیا ہے کہ حکومت تبدیلی کے بجائے ترقی کو ہدف بنائے۔ کرکٹ کی مثالوں کی طرح تبدیلی لفظ  بھی اب رُل چکا ہے۔ عوام البتہ یوٹیلٹی سٹورز کے باہر قطار در قطار کھڑے سوچ رہے ہیں کہ ترقی کی منزل کب آئے گی۔ 

شیئر: