Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جب سعودی عرب میں بینکوں کا قیام مشکل کام تھا‘

منی ایکسچینجرز کا گروپ قائم کیا، یہیں سے البلاد بینک کی داغ بیل پڑی۔ (فوٹو عرب نیوز) 
سعودی عرب معروف بینک البلاد کے بانیوں میں سے ایک ابراہیم السبیعی جو سعودی عرب میں منی ایکسچینج کمپنیوں کے بانی بھی مانے جاتے ہیں بتایا  کہ بینکنگ کے شعبے میں طویل تجربہ رکھنے والے منی ایکسچینجرز کا ایک گروپ قائم کیا، یہیں سے البلاد بینک کی داغ بیل پڑی۔  
السعودیہ چینل کے معروف پروگرام ’الف میل‘ (ایک ہزار میل)  کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں منی ایکسچینجر بڑی تعداد میں تھے اور وہ  بینکاری کے قواعد و ضوابط اور نگرانی کی خصوصیت سے محروم تھے۔ منی ایکسچینجرز میں سے بعض دیوالیہ ہوگئے۔ کئی سے قانونی غلطیاں ہوئیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر اس وقت سعودی مانیٹری ادارے نے  منی ایکسچینجرز کے عمل کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا۔ 
 ابراہیم السبیعی نے بتایا کہ ساما نے تمام منی ایکسچینجرز سے کہا کہ وہ سب مل  کر ایک بینک قائم کریں۔  ان میں سے 8 افراد نے جن میں المقیرن، الراجحی اور الصیرفی شامل تھے ساما کی کی ہدایت پر عمل کیا اور اس طرح البلاد بینک قائم ہوگیا۔
السبیعی نے بتایا کہ ساما نے  بینک کے قیام میں تعاون کیا۔ البلاد بینک کے کاروبار میں اسلامی بینکاری پر توجہ مرکوز رکھی گئی۔
انہوں نے کہا کہ  بینک میں 80 لاکھ شیئرز ہولڈرز شریک ہوئے۔ جنہیں 55 فیصد شیئرز کے مالکانہ حقوق دیے گئے جبکہ بینک کے اصل مالکان نے 45 فیصد شیئر اپنے پاس رکھے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں بینکوں کا قیام بے حد مشکل کام تھا۔ ابتدائی زمانے میں اسے ناممکن سمجھا جارہا تھا تاہم ساما کی  قیادت کے عزم نے ناممکن کو ممکن بنادیا۔ ساما کی مدد اور پشت پناہی کی بدولت البلاد بینک کے قیام سے سعودی عرب میں بینکوں کے نظام کی شروعات ہوگئی۔

شیئر: