غزہ میں سنیچر کو امدادی سامان لینے کے لیے جانے والے مزید 31 افراد کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا جبکہ فضائی حملوں میں کم سے کم 28 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
امریکی خبر رساں دارے اے پی نے ہسپتال کے حکام اور عینی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ مرنے والوں میں چار بچے بھی شامل تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی ملاقات کے دو روز بعد بھی جنگ بندی میں پیش رفت کے امکانات نظر نہیں آ رہے۔
مزید پڑھیں
-
غزہ پٹی میں اسرائیلی جارحیت جاری ، 48 فلسطینی ہلاکNode ID: 892076
اس سے قبل صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک ایسا معاہدہ کرانے کے قریب پہنچ رہے ہیں جس سے ممکنہ طور پر جنگ بند ہو جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق مارے جانے والے 31 فلسطینی امدادی سامان کے ان مراکز کی طرف جا رہے تھے جن کو اسرائیل و امریکی حمایت یافتہ تنظیم غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن چلا رہی ہے۔
الاقصیٰ ہسپتال کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ کے علاقے دیر البلاح میں ہونے والے فضائی حملے سے 13 ہلاک ہوئے جن میں چار بچے بھی شامل تھے۔
اسی طرح نصر ہسپتال کے حکام نے بتایا کہ خان یونس کے علاقے میں بھی فضائی حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک ہوئے۔
اسرائیل کے فوجی حکام کی جانب سے اس بارے میں فوری طور پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔
علاوہ ازیں اسرائیلی شہریوں کی جانب سے ایک بار پھر جنگ بندی کے حق میں ریلی نکالی گئی، جس کے موقع پر سابق یرغمالی ایلی شرابی نے اسرائیلی رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تکبر ہی ہے جو ہم پر یہ تباہی لایا ہے۔‘
21 ماہ سے جاری جنگ نے 20 لاکھ سے زائد آبادی رکھنے والے علاقے کو باہر سے آنے والے امدادی سامان تک محدود کر دیا ہے جبکہ دوسری جانب غذائی ماہرین نے علاقے میں قحط کی سی صورت حال سے بھی خبردار کیا ہے۔
پچھلی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے مارچ میں اسرائیل نے علاقے میں کھانے پینے کے سامان کی ترسیل پر پابندی لگا دی تھی۔
ریڈ کراس کے اہلکاروں نے رفح میں امدادی مرکز کے قریب فائرنگ کے واقعے کے بعد کہا کہ ’لوگ خوراک کی تقسیم کے مراکز تک جانے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
دوسری جانب اسرائیلی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے ان لوگوں کی طرف انتباہی گولیاں چلائی گئیں جن کا انداز مشکوک تھا اور ان کو دور رہنے کی وارننگ دی گئی۔ ان کی جانب سے کسی بھی ہلاکت سے لاعلمی ظاہر کی گئی جبکہ غزہ ہیومنٹیرین فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ اس کی سائٹس کے قریب ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
نصر ہسپتال میں موجود زخمی عبداللہ الہداد نامی شخص کا کہنا ہے کہ جب وہ شاکوش کے علاقے میں جی ایچ ایف کے مرکز سے 200 میٹر کے فاصلے پر تھا تو ایک اسرائیلی ٹینک کے اوپر سے فلسطینیوں پر فائرنگ شروع کر دی گئی۔
ان کے مطابق ’ہم سب اکٹھے تھے اور انہوں نے یکدم ہمارے اوپر گولیاں چلائیں۔‘
اسی طرح ایک اور عینی شاہد جمال ال ساہلو کا کہنا ہے کہ فائرنگ شروع ہوتے ہی اسرائیلی فوجیوں نے انہیں سائٹ کی طرف بڑھنے کا حکم بھی دیا۔
ہسپتال کے حکام کے مطابق سمیہ الشائر نامی خاتون کا 17 سالہ بیٹا ناصر بھی اس واقعے میں ہلاک ہوا۔
سمیہ الشائر کا کہنا ہے کہ ’اس نے مجھے کہا کہ گھر میں آٹا موجود نہیں ہے میں جا کے لاتا ہوں، چاہے مجھے مرنا بھی پڑے پھر بھی جاؤں گا۔ وہ چلا گیا اور پھر واپس نہیں آیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اب دوسرے لڑکوں کو بھی سائٹ کی طرف جانے سے منع کرتی ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ بہت خطرناک ہے۔