Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جی ایس پی پلس‘ کیا ہے، پاکستان کو کیا نقصان ہو سکتا ہے؟

27 کنونشنز کی خلاف ورزی کی صورت میں یورپی یونین پاکستان کو دی جانے والی جی ایس پی پلس سہولت پر نظرثانی کی مجاز ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
یورپی پارلیمنٹ نے جمعرات کو ایک قرارداد کی بھاری اکثریت منظوری دی ہے جس میں پاکستان کو دیے گئے جی ایس پی پلس سٹیٹس پر نظرثانی کرنے کا کہا گیا ہے۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ایسے قوانین ہیں جو کہ اقلیتوں اور بنیادی حقوق کے منافی ہیں۔
1971 میں اقوام متحدہ کی کانفرنس اینڈ ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ نے قرار داد منظور کی کہ یورپی ممالک ترقی پذیر ممالک کی برآمدات بڑھانے اور وہاں پر روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ان ممالک کی مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک رسائی دے۔
جس کے بعد جنرلائزڈ سکیم آف پریفرنسز کا آغاز ہوا۔ جس کے تحت یورپی منڈیوں تک پہنچنے والی مصنوعات کے ڈیوٹی ٹیرف کو ختم یا ان میں کمی کر دی جاتی ہے۔
اس سکیم کے تین مرحلے ہیں جس میں بنیادی جی ایس پی، جی ایس پی پلس، اور ایوری تھنگ بٹ آرمز  یعنی اسلحے کے علاوہ سب شامل ہیں۔
پاکستان اس وقت جی ایس پی پلس کا حامل ملک ہے۔ جس کے ایسی دو تہائی مصنوعات جن پر درآمدی ڈیوٹی لگنی ہوتی ہے اسے کم کر کے صفر فیصد کر دیا گیا ہے۔ تاہم اس کے لیے کچھ شرائط بھی رکھی گئی ہیں۔
جس ملک کو بھی یہ درجہ دیا جاتا ہے اسے انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، ماحولیات کے تحفظ اور گورننس میں بہتری سمیت 27 بین الاقوامی معاہدوں کی توثیق کرنا ہوتی ہے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے بنیادی اصولوں کے تحت صنعتوں اور کارخانوں میں یونین سازی کو یقینی بنانا ہوگا جبکہ جبری یا رضاکارانہ مشقت، چائلڈ لیبر، کام کی جگہ پر جنس رنگ و نسل عقیدے کی بنیاد پر امتیازی طرز عمل کو ختم کرنا ہوگا۔
ان 27 کنونشنز کی خلاف ورزی کی صورت میں یورپی یونین پاکستان کو دی جانے والی اس سہولت پر نظرثانی کی مجاز ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ ان معاملات پر یورپی یونین کو مانیٹرنگ اور اس کی رپورٹنگ کو بغیر کسی تحفظات کے اظہار کے ماننا پڑتا ہے اور اس سلسلے میں یورپی یونین کے ساتھ تعاون بھی ناگزیر ہے۔

وزارت تجارت کے مطابق جی ایس پی پلس کے آغاز سے ہی یورپی یونین میں پاکستانی برآمدات میں 65 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

یورپی یونین وقتاً فوقتاً ان شرائط پر عمل در آمد کا جائزہ لیتا رہے گا اور ان پر عمل در آمد نہ ہونے کی صورت میں جی ایس پی پلس کا سٹیٹس واپس بھی لیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ 2013 میں ملا تاہم اس کے فوائد یکم جنوری 2014 سے 2017 تک ڈیوٹی فری رسائی کے طور پر حاصل ہوئے۔ جن میں بعد ازاں دو مرتبہ توسیع کی جا چکی ہے۔
پاکستان اس سے پہلے یورپین مارکیٹ کے لیے 2002  سے 2004 کے درمیان جی ایس پی سکیم کے فوائد سمیٹتا رہا ہے مگر جی ایس پی پلس پاکستان کے لیے اس وقت ختم کر دی گئی جب ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں اس کو چیلنج کیا گیا اور اس طرح سے اس سہولت کا پاکستان سے خاتمہ ہو گیا۔
اس وقت پاکستان کے علاوہ آرمینیا، بولیویا، کیپ وردے، کوسٹا ریکا، ایکواڈور، ای سلواڈور، جارجیا، گواتے مالا، منگولیا، پانامہ، پیراگوئے اور پیرو جیسے ممالک جی ایس پی پلس کی سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں۔
وزارت تجارت کے مطابق 2014 سے جی ایس پی پلس کے آغاز سے ہی یورپی یونین میں پاکستانی برآمدات میں 65 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا جبکہ یورپی یونین سے درآمدات میں 44 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

قرار داد کے مطابق پاکستان میں ایسے قوانین ہیں جو کہ اقلیتوں اور بنیادی حقوق کے منافی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

وزارت خزانہ کے 2019-20 کے اقتصادی سروے کے مطابق گزشتہ مالی سال میں ڈالر کے مقابلے میں یورو کی قیمت میں کمی کے باوجود پاکستان یورپی منڈیوں میں اپنی تجارت بڑھانے میں کامیاب ہوا ہے۔ ویلیو ایڈڈ مصنوعات کے ساتھ پاکستان کی یورپی یونین کو برآمدات میں چھ اعشاریہ نو فیصد اضافہ ہوا۔
معاشی تجزیہ کار فرخ سلیم نے کہا کہ ’پاکستان یورپی منڈیوں میں کم و بیش آٹھ ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کرتا ہے جبکہ وہاں سے درآمدی بل پانچ ارب ڈالر کا ہے۔ دنیا کے بہت کم ممالک ہیں جن کے ساتھ ہمارا تجارتی حجم مثبت رہتا ہے اور ہمیں وہاں خسارہ نہیں ہوتا۔ ان میں ایک امریکہ اور ایک یورپ ہے۔ ہمارا یورپ کے ساتھ کم و بیش تین ارب ڈالر کا سرپلس ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’باقی ساری دنیا کے ممالک میں ہم تجارتی خسارے میں ہیں۔ اگر یورپی یونین جی ایس پی پلس سٹیٹس کی سہولت واپس لیتی ہے تو خدشہ ہے کہ یہ سرپلس ختم ہو جائے گا۔ تاہم اس وقت اس مسئلے کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے اگر خالصتاً تجارتی نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو پاکستانی درآمدامت میں دس سے پندرہ فیصد کمی آئے گی۔

شیئر: