Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیک ڈور ڈپلومیسی حکومت کا امتحان: ماریہ میمن کا کالم

خطے میں امن کا مثبت اثر دونوں ملکوں پر ہی نہیں بلکہ باقی دنیا کے امن پر بھی ہو گا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کی داخلی سیاست میں تو تلاطم رہتا ہی ہے مگر گزشتہ مہینے سے خارجہ پالیسی کے میدان میں پاکستان، انڈیا بیک چینل رابطوں کی خبریں کچھ معتبر اور کچھ غیر معتبر حلقوں کی طرف سے گرم ہیں۔
ان بیک چینل رابطوں پر جو بیک ڈور مشاورت ہو رہی ہے اس کا بھی ذکر بھی اب عام ہے۔ غیر معتبر خبروں کو آسانی سے نظر انداز کیا جاسکتا ہے مگر جب اعلی ترین حلقوں کی طرف سے بھی پاکستان انڈیا بیک چینل گفتگو اور اس کے ساتھ ساتھ ہماری پوزیشن ایک نئے رخ سے دیکھنے کی نوید سنائی گئی ہو تو یہ اندازہ لگانے میں کوئی حرج نہیں کہ اس ضمن میں پیش رفت ہو نہ ہو پیش قدمی ضرور ہو رہی ہے۔ 
اس پیش قدمی کے اگلے مراحل اور پھر ان کے نتائج دونوں ہی دور رس ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس خطے میں امن کا مثبت اثر دونوں ملکوں پر ہی نہیں بلکہ باقی دنیا کے امن پر بھی ہو گا۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ آخر میں مذاکرات اور بات چیت سے ہی کوئی دیر پا راستہ نکلتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ دونوں ملکوں کی حالیہ تاریخ، عوامی راۓ، سٹیک ہولڈرز کا اختلاف وہ عوامل ہیں جو کسی بھی حتمی پیش رفت کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

وزیر خارجہ کے بیانات میں پاکستان کی پوزیشن اور حکمت عملی کو لے کر ابہام نظر آتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ہماری قیادت کے لیے بھی ان عوامل سے ڈیل کرنا ضروری اور لازم و ملزوم ہے۔ کسی بھی نئے رخ اور نئے زاویے کا نچلی سطح پر ذہن سازی کے ذریعے پہنچنا اس عمل کا سب سے پہلا قدم ہونا چاہیے۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت اور ریاست کی طرف سے ملے جلے اشارے صورتحال کی نزاکت میں اضافہ کر رہے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں بھی کافی کنفیوژن رہی ہے۔ پہلے تجارت کے معاملے پر اپنی ہی وزارت کے پروپوزل کو کابینہ نے مسترد کر دیا۔ وزیر خارجہ کے بیانات میں پاکستان کی پوزیشن اور حکمت عملی کو لے کر ابہام نظر آتا ہے اور وہ اپنے ہی بیانات کی مزید توجیہ اور تصحیح کرتے نظر آتے ہیں۔
اس کی بظاہر وجہ یہ بھی ہے کہ ہمسایہ ملک کی طرف سے مکمل خاموشی ہے مگر اس دوران حکومت کو کم از کم اپنی سطح پر ایک واضح بیانیہ رکھنا چاہیے اور اندرونی طور پر اس کو احتیاط مگر صراحت کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔
بیک چینل خارجہ پالیسی کی خصوصا انڈیا کے ساتھ تعلقات میں ضرورت بھی رہتی ہے مگر اس کو بھی ابھی تک بیک ڈور ہی رکھا گیا ہے۔ پاکستان انڈیا تعلقات کی کی ایک سیاسی اہمیت بھی ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ آخر میں مذاکرات اور بات چیت سے ہی کوئی دیر پا راستہ نکلتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ہمیشہ سے حکومت کو بڑے نازک طریقے سے ان رابطوں کو لے کر چلنا پڑا ہے۔ اس پر کئی جماعتوں نے سیاست بھی کی ہے اور احتجاج کا راستہ بھی اپنایا ہے۔ حکومت اور ریاست کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لینا ضروری ہے۔
صحافیوں کی معقول تعداد کے ساتھ سیر حاصل سیشن اچھی بات ہے مگر سیاستدانوں کے ساتھ مشاورت اس لیے ضروری ہے کہ اس اہم قومی معاملے کو موقع پرستی  سے بچایا جا سکے۔ اس ضمن میں کوئی اے پی سی یا اس سے ملتے جلتے فورم میں اس پر بحث اور تبادلہ خیال ہو سکتا ہے۔
اس سے پیشتر تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود فاٹا اور گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر متفقہ فیصلے ہو چکے ہیں۔ اس اہم ایشو پر بھی بیٹھک ضروری ہے جس کے بعد یہ معاملہ باقاعدہ پارلیمنٹ میں بھی زیر بحث آ سکتا ہے۔
آخر میں اس معاملے نے غیر رسمی اور پس پردہ رابطوں سے نکل کر جلد یا بدیر رسمی اور سرکاری طور پر زیر بحث آنا ہے۔ اس پر کسی خاطر خواہ پیش رفت کا دارو مدار اس بات پر بھی ہے کہ انڈیا اس کو کب اور کس طرح سامنے لاتا ہے۔
اس کے ساتھ ریاست، حکومت اور سیاست کا ایک پیج پر ہونا بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے مشاورت کے دائرے کو بھی پھیلانا ہو گا اور عوام کو بھی اعتماد میں لینا ہو گا۔
یہی وہ اقدام ہیں جو قیادت کی معاملہ فہمی اور دور اندیشی کا امتحان ہوتے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری آج کی قیادت اس امتحان کو کس طرح ڈیل کرتی ہے؟

شیئر: