Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ میں پانی کا 50 فیصد انفراسٹرکچر تباہ، نقصانات کا تخمینہ 150 ملین ڈالر

اسرائیل کے حملوں میں کم از کم 248 فلسطینی مارے گئے جن میں 66 بچے شامل تھے۔ فوٹو: اے ایف پی
جنگ بندی کے بعد فلسطینی شہری 11 دن کی اسرائیلی جنگ سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگا رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق فضائی حملوں اور توپخانے کی شیلنگ سے فلسطینی علاقے میں 17 ہزار گھر اور کاروبار، 53 سکول، چھ ہسپتال، چار مساجد تباہ ہوئیں۔
11 دن کی بمباری کے دوران غزہ میں پانی کی سپلائی کا 50 فیصد انفراسٹرکچر بھی تباہ ہوا اور تقریبا آٹھ لاکھ افراد پائپ کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر فراہم کیے جانے والے صاف پانی تک رسائی سے محروم ہو گئے۔

 

غزہ کی ورکس اینڈ ہاؤسنگ وزارت کے ایک اہلکار ناجی سرحان نے بتایا کہ اسرائیلی حملوں سے مالی نقصانات کا تخمینہ 150 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ تاہم انسانی المیہ اس سے کہیں زیادہ تباہ کن ہے۔
اسرائیل کے حملوں میں کم از کم 248 فلسطینی مارے گئے جن میں 66 بچے شامل تھے۔
غزہ میں پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والی ایک ایجنسی نے تشدد کے دوران ٹراما کا شکار ہونے والے نوجوانوں کی مدد کے لیے خصوصی پروگرام شروع کیا ہے۔
ان متاثرین میں غزہ کی الوحدہ سٹریٹ میں اسرائیلی حملے میں بچ جانے والے افراد بھی شامل ہیں۔ اس حملے میں کم از کم 42 افراد ہلاک جبکہ 50 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ الوحدہ سٹریٹ پر حملے میں تین بہنیں ہالہ، یارا اور رولہ الکولاک اور ان کے والد گھر کے ملبے تلے دب کر مارے گئے جبکہ تین بیٹیوں کی ماں دالال اور ان کا دو سالہ بیٹا عبداللہ زندہ بچ گئے۔
دالال کے والد احمد المغربی نے عرب نیوز کو بتایا کہ عبداللہ اور اس کی ماں ابھی تک گہرے صدمے میں ہیں۔ ’میری بیٹی کو ادویات کے زیر اثر رکھا جا رہا ہے۔ کبھی وہ اس بات پر یقین ہی نہیں کرتی کہ اس کے شوہر اور بیٹیاں اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔ اور کبھی وہ پوچھتی ہے کہ ان کو کیوں قتل کیا گیا۔‘

غزہ فلسطینی پولیس کے اہلکار تباہ ہونے والی پولیس ہیڈ کوارٹر کی عمارت کے ملبے پر کھڑے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

نارویجین ریفیوجی کونسل (این سی آر) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنگ کے پہلے ہفتے میں مارے گئے 60 بچوں میں سے الوحدہ سٹریٹ کی تین بہنیں اور آٹھ دیگر بچے اُن کے ٹراما کا مقابلہ کرنے میں مدد دینے والے نفسیاتی و سوشل پروگرام میں شریک رہے تھے۔ 
کونسل کے مطابق اپنے گھروں میں مارے گئے بچوں کی عمریں پانچ سے پندرہ برس کے درمیان تھیں اور وہ غزہ کے گنجان آباد علاقے میں دیگر ان گنت رشتہ داروں کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔
این آر سی کے سیکریٹری جنرل جان اگیلینڈ نے کہا کہ ’ہم یہ جان کر سخت صدمے میں ہیں کہ وہ آٹھ بچے بھی مرنے والوں میں شامل ہیں جن کی ہم مدد کر رہے تھے اور وہ اپنے گھر میں یہ سمجھ کر رہ رہے تھے کہ وہ محفوظ ہیں جب ان پر بمباری کی گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ اب چلے گئے، اپنے خاندانوں کے ساتھ مارے گئے، اپنے خواب اور اپنے خوف ساتھ لے کر دفن ہو گئے۔‘

شیئر: