Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نہیں کرنی شادی معاف کرو جان چھوڑو!‘ نوشین شاہ نے ایسا کیوں کہا؟

اداکارہ نوشین شاہ کی انسٹاگرام سٹوری پر کئی صارفین انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں (فوٹو: سکرین گریب)
’ایسا صرف اس ملک میں ہوتا ہے کہ اگر آپ شادی شدہ نہیں ہیں تو آپ کی والدہ آپ کو ہر روز یہ باور کراتی رہیں گی۔ شادی کر لو شادی کر لو! نہیں کرنی شادی بھئی معاف کر دو جان چھوڑو!‘
اداکارہ نوشین شاہ کی اس انسٹاگرام سٹوری نے کسی کو حیران کیا تو کسی کو پریشان، کوئی ان کی حمایت میں سامنے آیا تو کسی نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ کچھ صارفین کو ان کے الفاظ کے چناؤ پر اعتراض تھا تو کچھ کو یہ تشویش لاحق تھی کہ ’پہاڑ جیسی زندگی اکیلے کیسے گزرے گی؟‘
نوشین شاہ کی اس پوسٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی اسی دباؤ کے زیراثر ہیں جس کا سامنا پاکستانی معاشرے میں تقریباً ہر لڑکی کو کرنا پڑتا ہے۔۔۔ اور وہ ہے ’شادی کا دباؤ‘  
اگرچہ آج کے جدید دور نے زندگی کے دیگر معاملات میں لوگوں کی سوچ کے زاویے کسی حد تک تبدیل کر دیے ہیں مگر لڑکی کی ’صحیح عمر‘ میں شادی ایک ایسا معاملہ ہے جس پر آج بھی معاشرے میں روایتی خیالات کا رجحان نظر آتا ہے اور یہ نسل در نسل پروان چڑھ رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اگر ایک لڑکی خواہ اپنی زندگی میں کتنی ہی کامیاب ہو، کتنی ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو، خودمختار ہو لیکن جب تک شادی کے بندھن میں نہیں بندھ جاتی اس کی ذات اور زندگی کو ’ادھورا‘ ہی تصور کیا جاتا ہے۔
ایسے میں اگر کوئی لڑکی ساری عمر ’سنگل‘ یعنی غیرشادی شدہ رہنے کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ معاشرتی دباؤ اس کے لیے ایک مشکل چیلنج بن جاتا ہے۔ بات صرف سوسائٹی کے پریشر تک ہی نہیں رہتی بلکہ گھر والے بھی اس سے اثرانداز ہوتے ہیں جو صورتحال کو مزید گھمبیر بنا سکتے ہیں۔
نوشین شاہ کی اس پوسٹ پر اینکرپرسن علینہ فاروق کے تبصرے کو کافی پذیرائی مل رہی ہے جنہوں نے اداکارہ سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’اگر آپ شادی شدہ ہوں اور آپ کا بچہ نہ ہو تو ہر کوئی آپ کو روز اس بات کا احساس دلائے گا۔ بچے کرلو بچے کر لو نہیں کرنے بچے بھئی معاف کردو جان چھوڑو!‘

علینہ فاروق بطور پروگرام اینکر پرسن کراچی میں ایک نجی نیوز چینل سے وابستہ ہیں اور وہ اس سے پہلے سپورٹس پروگرام کی میزبانی بھی کرتی رہی ہیں۔ علینہ 2016 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں، لیکن وہ بھی شادی کے دباؤ کے مرحلے سے گزری ہیں۔  
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میں یہ سمجھتی ہوں کہ نوشین شاہ کی بات کو سمجھے بغیر ان پر تنقید کی جا رہی ہے، اگر دیکھا جائے تو انہوں نے کچھ غلط نہیں کہا بلکہ ہر لڑکی کی بات کی ہے۔ لیکن ان کے نکتہ نظر کو ٹھیک سے سمجھا نہیں گیا۔‘
وہ سمجھتی ہیں کہ ’جب ایک لڑکی اپنی ذات سے متعلق کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس کے گھر والوں کو اسے مکمل سپورٹ کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ یہ توقع کر رہی ہوتی ہے کہ اگر معاشرہ اسے نہیں سمجھے گا تو کم از کم اس کے گھر والے خصوصاً والدین اس کی خواہش کا احترام کریں گے اور اس کا ساتھ دیں گے لیکن جب ایسا نہیں ہوتا تو دکھ ہوتا ہے اور پھر اسی طرح جذبات کا اظہار ہوتا ہے جیسا نوشین نے کیا۔ مگر اس میں کچھ غلط نہیں۔‘
علینہ فاروق نے اردو نیوز کے ساتھ اپنا ذاتی تجربہ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’ویسے تو میری شادی 24 سال کی عمر میں ہی ہو گئی تھی لیکن مجھے یاد ہے کہ 20 سال کی عمر کے بعد ہی مجھ پر شادی کا دباؤ تھا۔ اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ ابھی وقت ہے شادی کر لو بعد میں اچھا رشتہ نہیں ملنا۔ لوگ خود سے وجہ ڈھونڈتے تھے کہ کیا بات ہے جو ابھی تک شادی نہیں ہو رہی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جب شادی ہو گئی تو پھر ایک نئے دباؤ کا شکار کیا جانے لگا کہ بچے کب کرنے ہیں، ابھی تک کوئی بچہ کیوں نہیں ہوا۔ اٹھتے بیٹھتے بس یہی بات ہی سننے کو ملتی رہی بلکہ کچھ لوگوں نے تو حکیم اور ڈاکٹرز سے علاج کرانے کے مشورے بھی دے ڈالے۔‘

علینہ فاروق سمجھتی ہیں کہ ’جب ایک لڑکی اپنی ذات سے متعلق کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس کے گھر والوں کو اسے مکمل سپورٹ کرنا چاہیے‘ (فوٹو بشکریہ علی خورشید)

اس سوال کے جواب میں کہ معاشرتی دباؤ سے کس طرح نمٹنا چاہیے علینہ فاروق نے کہا کہ ’جب آپ کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو اس کے ردعمل کے لیے بھی خود کو تیار رکھتے ہیں۔ اور جب آپ پر دباؤ ڈالا جاتا ہے تو پہلے تو مزاحمت ہی کی جاتی ہے۔ اور اس سارے معاملے سے نہ صرف ایموشنلی بلکہ انٹیلیکچوئلی نمٹنا ہوتا ہے۔ اپنے حواس پر قابو رکھ کر اور پھر آپ کچھ حدود (باؤنڈریز) کا تعین کرتے ہیں تاکہ کوئی بھی آپ کو کچھ ایسا نہ کہہ سکے۔‘
علینہ فاروق کہتی ہیں کہ ’شادی کرنا یا نہ کرنا، بچے کب کرنے ہیں یا نہیں کرنے یہ بہت ذاتی فیصلے ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں کسی کی پرائیویسی کو نہیں سمجھا جاتا۔‘

ماہر نفسیات کا کیا کہنا ہے؟

لڑکیوں کی شخصیت اور ان کی ذہنی صحت پر شادی کے دباؤ کی وجہ سے پڑنے والے اثرات سے متعلق جاننے کے لیے جب لاہور سے تعلق رکھنے والی کنسلٹنٹ سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر ہما اسلم سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ہر لڑکی کی اپنی شخصیت پر منحصر ہے چونکہ ہماری پرورش ایسے ماحول میں ہوئی ہے جہاں بچپن سے ہی اردگرد یہی دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ ایک خاص عمر میں لڑکی کی شادی ہو جانی چاہیے اور شادی کو ہمارے یہاں زندگی کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے تو ہر لڑکی ہی اس دباؤ کی وجہ سے پریشان تو ضرور ہوتی ہے۔‘
ڈاکٹر ہما کے بقول ’اس ساری صورتحال میں کس طرح کا ردعمل دینا ہے اس میں کچھ انفرادی عناصر کا عمل دخل ہے جس طرح ہر کسی کی برداشت کی حد دوسرے سے مختلف ہوتی ہے، کوئی اگر لوگوں کی باتوں کا اتنی شدت سے اثر نہیں لیتا مگر کچھ پر زیادہ اثرانداز ہوتی ہیں۔‘

سوشل اکنامکس ایکسپرٹ عون ساہی سمجھتے ہیں کہ لڑکی پر شادی کا دباؤ دراصل ہماری سوسائٹی کے ’کنٹرولنگ رویے‘ کا عکاس ہے (فوٹو بشکریہ میٹی مون)

وہ کہتی ہیں کہ ’بعض لڑکیاں اس ساری صورتحال کو بطور چیلنج قبول کرتی ہیں اور آج کے دور میں ہم ایسا دیکھ بھی رہے ہیں لیکن کچھ لڑکیاں ڈپریشن کا شکار بھی ہو جاتی ہیں جو ان کی ذہنی صحت پر منفی اثرات ڈالتا ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ایک لڑکی ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے لیے کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس کے گھر والوں کو تسلی سے اس کی بات سننی چاہیے کیونکہ جب آپ بھی اس کے فیصلے سے اختلاف کریں گے تو یہ اس کے لیے زیادہ پریشان کن ہوگا۔‘
سوشل اکنامکس ایکسپرٹ عون ساہی سمجھتے ہیں کہ لڑکی پر شادی کا دباؤ دراصل ہماری سوسائٹی کے ’کنٹرولنگ رویے‘ کا عکاس ہے۔ ’ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایک لڑکی جب پیدا ہوتی ہے تو اس کے والدین بچپن سے ہی اس کے لیے جہیز جوڑنا شروع کر دیتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لڑکی کی شادی کو کتنا اہم سمجھا جاتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ لڑکیوں کواچھی تعلیم بھی اچھے رشتے کے لیے دلوائی جاتی ہے۔ ’ہمارے یہاں بچیوں کو اچھی تعلیم دینے کا مقصد انہیں تعلیم یافتہ بنانا نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ان کی اچھی جگہ شادی ہو جائے۔‘
عون ساہی کے بقول ’جب نوشین شاہ جیسی خودمختار لڑکی یہ بات کہہ رہی ہے تو آپ اندازہ لگا لیں کہ ایک عام لڑکی جو خودمختار بھی نہیں ہے اور اس کے پاس اپنی بات کہنے کے لیے کوئی پلیٹ فارم بھی نہیں ہے تو وہ کس طرح اپنی اس فرسٹریشن کا اظہار کرے گی۔‘

ڈاکٹر ہما اسلم کہتی ہیں کہ ’کچھ لڑکیاں اس دباؤ کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار بھی ہو جاتی ہیں جو ان کی ذہنی صحت پر منفی اثرات ڈالتا ہے۔‘ (فوٹو بشکریہ قمر انور)

انہوں نے کہا کہ ’میں 20 سال سے خواتین سے متعلقہ ایشوز پر بات کر رہا ہوں اور میں نے ایسے بے شمار کیسز دیکھے ہیں جہاں لڑکی کی مرضی کے بغیر شادی کر دی گئی اور پھر ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے زندگی تباہ ہو گئی۔‘
عون ساہی کہتے ہیں کہ ’ہم لڑکیوں کی چھوٹے موٹے معاملوں میں تو مرضی مان لیتے ہیں کہ کس کالج میں پڑھنا ہے، کون سے سبجیکٹس پڑھنے ہیں مگر اس کی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ اسے اپنی مرضی سے نہیں کرنے دیتے کہ اس نے شادی کرنی ہے یا نہیں، اگر کرنی ہے تو کس سے کرنی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب ایک لڑکی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اس نے شادی نہیں کرنی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اپنے انداز سے گزارنا چاہتی ہے آزاد رہ کر۔ اور یہ حق ہر انسان کو حاصل ہے۔‘

سوشل میڈیا پر ردعمل:

نوشین شاہ کی اس پوسٹ پر ڈیزائنر عمر سعید نے تبصرہ کیا کہ ’جب کوشش کے باوجود لوگوں کی شادی نہیں ہو پاتی تو پھر عزت بچانے کے لیے یہی کہنا پڑتا ہے۔‘

ایک اور صارف نعمان علی نے لکھا کہ ’نوشین شاہ پاکستان کی کنگنا رناوت ہیں۔‘

سوہیما نامی صارف نے لکھا کہ ’جو اداکار پاکستان کی عزت نہیں کرسکتے اُنہیں تو ملک بدر ہی کردینا بہتر ہے۔‘
کچھ صارفین نوشین شاہ کی بات سے متفق بھی دکھائی دیے اور ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی لڑکی شادی نہیں کرنا چاہتی تو اس کے ساتھ زور زبردستی نہیں کرنی چاہیے۔

شیئر: