Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میری پیاری امی، ماریہ میمن کا کالم

ایک دوست نے مشورہ دیا کہ اپنی ماں کے ان تحفوں کی لسٹ بناؤ جو مختلف عادات و اطوار کی صورت میں تم میں منتقل ہوئے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)
 آپ کو اس دنیا سے گزرے پورا سال بیت گیا۔۔ آج آپ کی پہلی برسی ہے۔ اوروں کے لیے برسی کا لفظ کئی بار استعمال کیا ہے لیکن جب کوئی اپنا چلا جاتا ہے تو برسی کے حقیقی مفہوم کا پتا لگتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے دل پر رکھ رکھ کر گھونسے مارے ہوں۔ 
سجھ نہیں آتا کہ آیا یہ میری زندگی کا سب سے لمبا برس ہے یا سب سے مختصر۔ میری سہیلی ماہین عثمانی کے مطابق ’یوں لگتا ہے کہ  کسی نے دھرتی کو اپنے مدار پر الٹا دیا ہے۔۔۔ جتنی تیزی سے زمین اپنے مدار میں گھوم رہی ہے اتنا ہی محسوس ہو رہا ہے کہ وقت وہیں کا وہیں جامد ہے۔ 
آپ کی وفات سے پہلے میری ذات غم کے حقیقی مطلب سے ناآشنا تھی۔ نہیں نہیں اس کا مقصد ہرگز نہیں کہ زندگی میں کبھی کسی صدمے یا تکلیف کا سامنا نہیں کیا۔ ہر ذی الشعور کی طرح دکھ سے تو کسی نہ کسی موڑ پر آنکھ مچولی ہو ہی جاتی ہے لیکن وہ غم جس کی شدت آپ کے جسم و جان کو یوں جکڑ لے کہ اس سے جان چھڑانا ممکن نہ رہے۔ اس بھرپور غم سے تعارف پہلی بار ہوا ہے۔
میں سائنس کی ایک واجبی سی طالب علم ہوں لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں کہ میرے وجود کے ہر ایک ذرے اور مالیکیول نے آپ کے جانے کا سوگ منایا ہے۔ شاید اسے خبر ہو گئی کہ جس نے اسے جنم دیا ہے وہ ذریعہ زندگی اب نہیں رہا۔ اس کیفیت کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں لیکن پھر بھی کوشش کرکے بیان کروں تو آپ کی وفات کا جسمانی درد میری ذات کے روں روں نے باقاعدہ محسوس کیا ہے۔
ابتدا میں تو یوں لگتا تھا کہ سینے پر دل کے عین اوپر کسی نے ایسا بھاری پتھر رکھ دیا ہے جسے سرکایا نہیں جا سکتا۔۔۔ ایک سال میں اتنی بہتری ضرور آئی ہے کہ اب اس پتھر کو سرکا کے دھکیل دیتی ہوں لیکن وقتاً فوقتاً یہ لڑھک کر  پھر وہیں آجاتا ہے۔ لگتا ہے یہ سرکانے اور لڑھکنے کا کھیل تو اب زندگی کا ایک مستقل حصہ ہے۔
سچ پوچھیں تو شروع کے دو ماہ تو ایسا لگتا تھا کہ آپ کسی بھی وقت کمرے سے باہر نکل کر کہیں گی کہ ارے میں تو مذاق کر رہی تھی۔ یہ تو ایک پریکٹیکل جوک تھا۔۔  لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔۔۔ زندگی کے بیشتر مصائب، تنگیوں اور دکھوں سے واپسی یا کم بیک کا ہمیشہ کوئی نہ کوئی رستہ نکلنے کی گنجائش ہوتی ہے لیکن موت جیسی کٹھور اور اٹل شے پہلی بار دیکھی ہے۔ 
ابتدا میں تو ذات کے اندر اتنا گھپ اندھیرا تھا کہ کچھ سجھائی ہی نہ دیتا تھا۔ پھر نہ جانے کہاں سے کچھ مہربان نمودار ہوئے۔ کچھ ایسے لوگ جو غم کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہاتھ پکڑ کر اس کے طور طریقوں سے روشناس کرایا۔ ساری زندگی ان کی شکر گزار رہوں گی۔ اس قبیلے میں ہم سب نے کبھی نہ کبھی آنا ہی ہے۔ اب میں بھی  اپنے تئیں کوشش کرتی ہوں کہ اپنوں کو ہمیشہ کے لیے کھو دینے والوں کی دلجوئی کر سکوں۔

’میری پیاری امی، کوشش کروں گی کہ آپ کی ساری ادھوری خواہشات کو پورا کروں‘ (فوٹو: ٹوئٹر)

جب ڈپریشن بہت بڑھ گیا تو ایک سمجھ دار دوست نے ایک دن بٹھا کر ایک ناقابل فراموش پاٹ پڑھا دیا۔ وہ یہ تھا کہ اپنی ماں کے ان تحفوں کی لسٹ بناؤ جو مختلف عادات و اطوار کی صورت میں تم میں منتقل ہوئے ہیں۔ واہ! یہ کیا ہی خوب زاویہ تھا جس نے میری سوچ کو زرخیز کر دیا۔ 
امی، جب کبھی ایسا گماں ہونے لگتا ہے کہ میرے ذہن میں آپ کا چہرہ اور آواز دھندلا سی رہی ہے تو اسی رات آپ خواب میں آکر کبھی ڈانٹ لگا دیتی ہیں اور زیادہ لاڈ آئے تو الماری میں کپڑے درست کرانا شروع ہو جاتی ہیں۔ آپ کے کھانوں کی ترکیبوں والے وائس نوٹس، اب بھی ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ اور اگر پھر بھی تسلی نہ ہو اور کبھی دل بھر آئے تو آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے چہرے کے خدوخال کو ٹٹولتی ہوں اور اس میں آپ کی جھلک کو پا لیتی ہوں۔ 
میری پیاری امی، کوشش کروں گی کہ آپ کی ساری ادھوری خواہشات کو پورا کروں۔ آپ کے خوابوں کو جیوں، وہ تمام کام جن کے لیے حالات نے آپ کو مہلت یا مواقع نہ دیے۔۔ جو آپ چاہتے ہوئے بھی نہ کر پائیں ان کو مکمل کروں۔ 
پتا نہیں کر پاؤں گی یا نہیں لیکن وعدہ کرتی ہوں کہ کوشش ضرور کروں گی۔
آپ کی برسی کی رات تین بجے یہ سطور تحریر کر رہی ہوں۔ آپ کا وہ پسندیدہ فیروزی جوڑا میری الماری میں لٹکا ہوا ہے۔ سوچ رہی ہوں کہ اسے درزی سے کھلوا کر اپنے سائز کا کرا لوں۔۔۔ لیکن ہمت نہیں ہو پارہی۔۔۔ شاید کیونکہ میں اس جوڑے کی صورت میں آپ کے وجود کی خوشبو کو محفوظ رکھنا چاہتی ہوں۔ 
رب راکھا امی۔
اس دنیا کے اس پار جو جہاں ہے اب وہیں ملاقات ہوگی۔ 
آپ کی بیٹی۔ ماریہ

شیئر: