Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی فنکاروں کا فن کے ذریعے فلسطین سے اظہار یکجہتی

فنکار تخلیقی صلاحیتیں مظلوموں سے اظہار یکجہتی کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ (فوٹو عرب نیوز)
مشرقی بیت المقدس  اور غزہ کے تازہ ترین افسوسناک واقعات کے بارے میں بات کرنے کے لئے پوری دنیا میں فنکار اپنے فن کا سہارا لے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فن اظہار کے سب سے طاقتور ذریعہ ہے۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق یہ فنکار اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو مظلوموں سے اظہار یکجہتی اور ناانصافی کے خلاف ڈٹ جانے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔

یہ مکالمہ سرحدوں، زبان اور ثقافتوں سے بالا ہے اور فنکار اس مکالمے کو جاری رکھنے کے لئے انفرادی یا اجتماعی اقدامات کا آغاز کر رہے ہیں۔
مدینہ منورہ میں مقیم لجین ابراہیم ایسی فنکار ہیں جنہوں نے گزشتہ چند ہفتوں کے مناظرکی ایمبرائیڈری اور کڑھائی کے ذریعے واضح تصویر کشی کی ہے۔
تصویر میں  مقبوضہ بیت المقدس کا رہائشی 70 سالہ نبیل الکرد  دکھایا گیا ہے۔ وہ شیخ جراح ضلع میں واقع اپنے گھر کی دیوار پر بنے نقش و نگار کے ساتھ کھڑا ہے اورکہہ رہا ہے 'ہم نہیں چھوڑیں گے' یہ عبارت عربی میں لکھی ہے۔
لجین ابراہیم نے عرب نیوز کو بتایا کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس جیسی مشکل صورتحال کے بارے میں کچھ کہنے کی بجائے میں جذبات محسوس کروں گا۔
فلسطینی یوم  النکسہ کی برسی امسال اس وقت سامنے آئی  جب ایک کرد اسرائیلی خاندان پر دائیں بازو کے آبادکاروں کے حق میں اسرائیلی عدالت کے فیصلے کے تحت فوری بے دخلی کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

مصور ناصر ملحم نے فلسطین اور اس کے عوام کے لئے ایک محبت نامہ لکھا جس میں تربوز  کے ٹکڑے نمایاں ہیں جو 1967 سے فلسطینی مزاحمت کی علامت ہیں جب اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی پرچم اور اس کے رنگوں کی نمائش پر پابندی عائد کردی تھی۔
فلسطینی پرچم کی طرح تربوز بھی سرخ ، سیاہ ، سفید اور سبز ہیں۔تربوز مزاحمت کی علامت بنے ہوئے ہیں اور اسے سوشل میڈیا میں زندہ کردیا گیا ہے۔
فلسطین سے سیکڑوں تصاویر منظر عام پر آرہی ہیں ۔ یہ دیکھنا مشکل ہے کہ گلیوں کے درمیان اور بند دروازوں کے پیچھے کیا چھپا ہے۔
ان تصاویر میں بالکونیوں میں جھولتے دھلے ہوئے کپڑوںمیں گھومتے بچے ، کچن میں کھانا بناتی خواتین  اور سڑک پر سبزیوں کی ریڑھیاں دھکیلتے مردوں کو بمباری سے تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے گزرتے دکھایاگیا ہے۔
جدہ میں مقیم سعودی فوٹوگرافر ایمان الدباغ نے ویمن فوٹوگراف انسٹاگرام اکاونٹ سنبھال لیا۔ ایک  نمائش میں فلسطینی فوٹوگرافرخواتین کی تصاویر پر توجہ دی گئی تھی۔
ثمر ابو ایلوف ، فاطمہ شبیر ، رہاف بتانیجی ، ثمر ہزبون ، رولا حلوانی ، لارا ابو رمضان ، خلود عید اور ایمان محمد کی تخلیقات فلسطینیوں کی نظر سے اس سرزمین کی حقیقی نوعیت کو ظاہر کرنے کے قابل ہیں۔

ایمان الدباغ نے عرب نیوز کو بتایاکہ درحقیقت فلسطینیوں کی آواز اس طرح نہیں سنی جاتی جس طرح لوگوں کو سننی چاہئے۔
ہم خطے میں اس معاملے کو مختلف انداز سے دیکھتے ہیں اور میں نے محسوس کیا کہ میں اپنی فوٹوگرافر برادری کے ذریعے اپنے انداز میں ان کی حمایت کرسکتی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ جب آپ آرٹ ، موسیقی اور ثقافت کی تصاویر دیکھتے ہیں تو مغرب کے لوگ اس کی شناخت زیادہ کرتے ہیں۔
آرٹسٹ دالیہ مومنہ فلسطینی مہاجر کی پوتی ہیں۔ ان کی نانی ان ہزاروں میں سے ایک تھیں جنہیں 1948 کے نکبہ کے دوران گھر سے نکال دیا گیا تھا اور جدہ بھاگنے پر مجبور کردیا گیا تھا۔

مومنہ نے مسجد اقصیٰ کے اندر ڈوم آف راک کی واضح آئل پینٹنگ تیار کی اور اسے”دوبارہ اٹھو“کا عنوان دیا۔
مومنہ نے اس تصویر کو اپنی دادی اور اپنے وطن فلسطین کے لئے وقف کیا اور فلسطینی بچوں کے امدادی فنڈ کے لئے رقم جمع کرنے کی خاطراپنی پینٹنگ کو  آن لائن نیلامی میں رکھ دیا۔
سعودی فنکار اور فوٹو گرافر دیا عزیز دیانے اپنے مداحوں کے ساتھ انسٹاگرام پر 'اسرائیلی بربریت' کے عنوان سے اپنا کام شیئر کیا جسے انہوں نے فلسطینی جدوجہد کے مختلف ادوار کے دوران تخلیق کیا۔
دیا نے عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فنکار اظہار خیال کا ایک با اثر ذریعہ رکھتا ہے اور یہ فن اظہار کے سب سے طاقتور ذرائع میں سے ایک ہے۔
فلسطینی شاعر محمود درویش کے ذکر کے بغیر فلسطین کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں ہوسکتی۔

سعودی فنکارہ تغرید البقشی نے اظہار یکجہتی کے لئے ایک فن  پارہ تیار کیا اور اس کے ساتھ درویش کی شاعری کا کیپشن لکھا ہمارے پاس اس زمین پروہ سب کچھ ہے جو زندگی کو جینے کے قابل بناتا ہے۔
اس زمین پر زمین کی مالکن کھڑی ہے، آغاز کی ماں، انجام کی ماں، فلسطین کے نام سے مشہور جو فلسطین بن گئی۔
البقشی نے کہا کہ عام بچے سمجھ نہیں سکتے کہ لفظ غم کے معانی کیا ہیں لیکن فلسطینی بچوں نے بہت چھوٹی عمر میں ہی اس کا تجربہ کیا اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
میں نے ماں کی زندگی ، سفید کبوتروں میں سکون، کھلے آسمان پر امید اور چوری شدہ بچپن سے بچوں کی آنکھوں میں واپس لوٹ جانے کی آواز کو تصویر میں ابھاراہے ۔
درویش نے فاطمہ النمر کے آرٹ ورک کو بھی متاثر کیا۔ انہوں نے درویش کی نظم 'اس کو ریکارڈ پر ڈالیں، میں عرب ہوں' کے عنوان سے توجہ اپنی طرف مبذول کروائی اور قبضہ میں رہنے والے عرب اور فلسطینیوں کی لچک اور فخر کی عکاسی کی۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ بطور فنکار ہم اپنے رنگوں اور پینٹنگز سے فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ مقصد کے بغیر کوئی سچا فنکار نہیں ہوتا۔ فن ایماندارانہ مشق ہے۔
 
فوٹوز بشکریہ عرب نیوز

شیئر: