Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماضی کے ریلوے حادثات کی انکوائری رپورٹس کا کیا بنا؟

گھوٹکی کے قریب ٹرینوں کے درمیان تصادم میں 41 افراد ہلاک ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں ریل گاڑیوں کے حادثات کوئی نئی بات نہیں بلکہ ایک تسلسل ہے جو چلا آ رہا ہے۔
ہر ٹرین حادثہ جو پورے سسٹم کو ہلا کر رکھ دیتا ہے تب اعلیٰ سطح کی انکوائری آرڈر کر دی جاتی ہے اور پھر اس کے نتائج پر کچھ افراد کو معطل کر دیا جاتا ہے۔ 
گزشتہ چھ برسوں میں ہونے والے بڑے حادثات کی انکوائری رپورٹس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 
جولائی 2015 میں پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کے قریب ایک ٹرین حادثے کا شکار ہوئی اور پٹری سے اتر کر نہر میں جا گری۔
ٹرین پر پاکستان کی فوج کی یونٹ بھی موجود تھی اور یہ ٹرین پنوں عاقل سے کھاریاں کینٹ میں اس یونٹ کو لے کر جا ری تھی۔
اس حادثے میں 20 افراد اپنی جان سے گئے۔ اس وقت کے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اس واقعے کی انکوائری کا حکم دیا۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ انکوائری ریلوے کی روایتی انکوائری نہیں تھی بلکہ اس میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنی اور فوج کے افسران بھی اس تحقیقاتی ٹیم کا حصہ تھے۔
بعد ازاں واقعے کی رپورٹ جو میڈیا کو جاری کی گئی اس میں بتایا گیا کہ ٹرین ضرورت سے زیادہ تیز رفتاری کے باعث حادثے کا شکار ہوئی۔ اس حادثے کی پہلی ذمہ داری ڈرائیور ریاض احمد، محمد فیاض اور گارڈ شاہد محمود پر عائد کی گئی۔ اسی طرح بالواسطہ ذمہ داران میں فیصل آباد سٹیشن سپرنٹنڈنٹ سمیت پانچ افسران کو بتایا گیا۔ 

گذشتہ برس شیخوپورہ میں بس اور ٹرین کے درمیان تصادم میں پشاور کے ایک سکھ خاندان کے 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نومبر 2016 میں کراچی کے علاقے لانڈھی میں دو ریل گاڑیاں فرید ایکسپریس اور بہاؤالدین زکریا ایکسپریس آپس میں ٹکرا گئیں جس کے نتیجے میں 21 افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔
ٹرین حادثے کے بعد اس کی انکوائری رپورٹ بھی آرڈر کی گئی۔ بعد ازاں رپورٹ میں ٹرین کے ڈرائیور کو حادثے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق فرید ایکسپریس لانڈھی سٹیشن پر کھڑی تھی جب ملتان سے آنے والے بہاؤالدین زکریا ایکسپریس کے ڈرائیور نے یلو سگنل پر دھیان نہیں دیا اور گاڑی کی سپیڈ کم نہیں کی جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔ 
گزشتہ سالوں کے ٹرین حادثات میں تیسرا بڑا حادثہ جنوری 2017 میں پیش آیا جب لودھراں کے قریب ہزارہ ایکسپریس سے ایک رکشہ ٹکرا گئی جس سے چھ بچوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حادثے کی تحقیقات کے بعد اس کی ذمے داری رکشہ ڈرائیور پر ڈالی گئی۔ 
سال 2018 میں بڑے ٹرین حادثے پیش نہیں آئے البتہ دو ریل گاڑیاں پٹریوں سے اتری جس میں دو درجن سے زائد مسافر زخمی ہوئے۔
ان حادثات کی انکوائری رپورٹ میں بوسیدہ ریلوے ٹریک کو قصور وار قرار دیا گیا۔ 

رحیم یار خان کے قریب چلتی ٹرین میں آگ لگنے سے 75 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جولائی 2019 میں البتہ کوئٹہ جانے والی ٹرین پنجاب کے شہر صادق آباد میں ایک کھڑی مال گاڑی سے ٹکرا گئی جس کے نتجے میں 24 افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
اس حادثے کی انکوائری بھی کی گئی جس میں ٹریک کی تبدیلی بروقت نہ کرنے پر ایک ریلوے اہلکار کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ 
اسی سال 2019 میں سب سے بڑا ٹرین حادثہ اکتوبر کے مہینے میں پنجاب کے شہر رحیم یارخان کے قریب تیز گام ایکسپریس کے ساتھ پیش آیا۔
جس میں چلتی ٹرین کو آگ لگ گئی جس کے نتیجے میں 75 افراد ہلاک ہوگئے۔
اس ٹرین کی انکوائری کا حکم بھی جاری کیا گیا اور اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرین حادثہ شارٹ سرکٹ کے باعث ہوا۔ اس سے پہلے یہ کہا جا رہا تھا کہ ایک بوگی میں دو گیس سلنڈر پھٹے جس کی وجہ سے آگ لگی۔


کچھ حادثات کی انکوائری رپورٹ میں بوسیدہ ریلوے ٹریک کو قصور وار قرار دیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

البتہ انکوائری رپورٹ جس کو جنوری 2020 میں پبلک کر دیا گیا تھا اس میں ڈپٹی ڈویژنل افسر، کمرشل افسر اور ڈائننگ کار کے ٹھیکیدار کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ 
فروری 2020 میں صوبہ سندھ کے علاقے روہڑی کے قریب ایک ٹرین بس سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں 19 افراد ہلاک ہو گئے۔ انکوائری رپورٹ میں اس حادثے کی ذمہ داری بس ڈرائیور پر عائد کی گئی۔ 
جولائی 2020 میں ایک ٹرین حادثہ ضلع شیخوپورہ میں بھی پیش آیا جب سکھ یاتریوں کی کوسٹر سے ایک ٹرین رفتار ٹرین ٹکرا گئی اور اس حادثے کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے 22 افراد ہلاک ہو گئے۔
واقعے کی انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا جاتری روڈ پر جہاں یہ حادثہ ہوا وہاں سے تھوڑی دور ٹرین آنے کی وجہ سے پھاٹک بند تھا لیکن کوسٹر ڈرائیور نے وقت بچانے کے لیے ٹرین کی پٹری پر ایک غیر قانونی گزر گاہ سے گاڑی گزارنے کی کوشش کی جو تیز رفتار ٹرین کی زد میں آگئی۔

پاکستان میں ہونے والے اب تک کے تمام بڑے حادثات میں کسی اعلیٰ افسر کو سزا نہیں ہوئی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس رپورٹ میں حادثے کی ذمہ داری کوسٹر ڈرائیور پر عائد کی گئی اور سفارشات مرتب کی گئیں کہ ٹرین پٹری پر غیر قانونی گزر گاہوں کو مکمل بند کیا جائے۔
ترجمان پاکستان ریلوے کے مطابق ریلوے کا تمام حادثات کی انکوائری کا اپنا نظام ہے اور ہر حادثے کی شفاف تحقیقات کی جاتی ہیں اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ اس واقعے کی تحقیقات کر کے عوام کو آگاہ کیا جائے گا۔‘

شیئر: