Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹیپ لِیک ہونے کے بعد ایران کے صدارتی آفس میں تبادلے

صدارتی آفس کے مطابق سٹریٹیجک سٹیڈیز سینٹر کے سربراہ نے استعفیٰ دے دیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایران کے صدر نے اس تھنک ٹینک کے سربراہ کو عہدے سے ہٹا دیا ہے جنہوں نے ملک کے وزیرخاریہ کا وہ انٹرویو ریکارڈ کیا تھا جو اس ہفتے لیک ہوا۔
اس انٹرویو سے ایران کی مذہبی حکومت میں اقتدار کے لیے ہونے والی رسہ کشی جھلکتی ہے اور اس نے ایران میں ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف اور ایک ماہر معیشت کے درمیان ایران کے ایوان صدر سے منسلک سٹریٹیجک سٹڈیز سینٹر میں ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ میں ظریف ڈپلومیسی اور اپنے محدود کردار پر کھل کر گفتگو کرتے ہیں۔

 

ایران کے صدر ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سٹریٹیجک سٹڈیز سینٹر کے سربراہ نے استعفیٰ دے دیا ہے اور علی ربیعی ان کی جگہ لیں گے۔ خیال رہے علی ربیعی پہلے سے ہی کابینہ کے ترجمان کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
آڈیو ٹیپ، جسے لندن سے چلنے والے فارسی زبان کے ٹی وی چینل ایران انٹرنیشنل کو لیک کیا گیا، کی وجہ سے 18 جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل ایران میں ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔
اگرچہ ظریف نے کہا ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ نہیں  لیں گے تاہم کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ وہ سخت گیر مذہبی امیدواروں کے خلاف متوقع امیدوار ہیں۔
لیک ہونے والی آڈیو میں جواد ظریف نے کہا تھا کہ ’ان پر پاسداران انقلاب کی کارروائیوں کی حمایت کے لیے سفارت کاری کی قربانی دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔
جواد ظریف نے بتایا کہ ’قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی جو سمندرپار کارروائیوں کے ذمہ دار تھے، نے وسیع تر خارجہ پالیسی کو براہ راست اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ سلیمانی گذشتہ سال جنوری میں بغداد میں امریکی حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
ایران انٹرنیشنل کے مطابق جواد ظریف نے کہا کہ ’سلیمانی کے اثر و رسوخ کا مطلب یہ تھا وہ ایسی سفارت کاری چاہتے تھے جو خطے میں ایران کی عسکری کارروائیوں کی حمایتی ہو۔
خیال رہے اس اس ہفتے کے شروع میں جواد ظریف نے اس ریکارڈنگ پر پچھتاوے کا اظہار کیا تھا۔

شیئر: