Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی ڈپٹی سپیکر کی جان لے گئی

ہلاک ہونے والے ڈپٹی سپیکر حکومت کی اتحادی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے (فوٹو: وکیپیڈیا)
پاکستان کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے ہنگامے کے دوران سب سے بے بس ایوان کے کسٹوڈین سپیکر اسد قیصر نظر آ ئے ہیں۔
منگل کے روز اسمبلی اجلاس کے دوران ہنگامہ شروع ہوا تو سپیکر کی بار بار کی کوششوں کے باوجود حکومت اور اپوزیشن کسی طور پر بھی پر امن ماحول میں کارروائی آگے بڑھانے پر راضی نہیں ہوئے۔
اگرچہ ایوان میں جاری جھگڑا حکومت اور اپوزیشن کے درمیان رہا لیکن یہ پہلا تنازعہ نہیں ہے جہاں سپیکر مشکل میں پڑے ہوں بلکہ سابقہ مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں ایسے ہی ایک ہنگامے میں ڈپٹی سپیکر جان گنوا بیٹھے تھے۔ 
وہ جھگڑا سپیکر اور حکومتی ارکان کے درمیان تھا لیکن ایوان کے اندر ہونے والے ہنگامے میں تشدد کے باعث ڈپٹی سپیکر شاہد علی پٹواری ہلاک ہو گئے تھے۔ 
کہا جاتا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کی ہلاکت جنرل ایوب کی جانب سے مارشل لاء لگانے کے لیے ’موزوں واقعات‘ میں سے ایک واقعہ تھی۔
صلاح الدین احمد کی انگریزی میں لکھی گئی کتاب ’ بنگلہ دیش، پاسٹ اینڈ پریزنٹ ‘ (بنگلہ دیش، ماضی اور حال) میں موجود واقعے کے مطابق پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا سب سے افسوسناک واقعہ 21 ستمبر 1958 کو پیش آیا تھا۔ 
مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کی اسمبلی سے تعلق رکھنے والے چھ حکومتی ارکان کی سپیکر عبدالحکیم نے خصوصی رولنگ کے ذریعے رکنیت معطل کر دی۔ حکومتی ارکان کی رکنیت معطل کیے جانے کے بعد حکومتی ارکان پیپر ویٹ اور پردوں کے ڈنڈے اکھاڑ کر سپیکر پر چڑھ دوڑے تاہم وہ بروقت اسمبلی سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ 
سپیکر کے بعد اجلاس چلانے کی ذمہ داری ڈپٹی سپیکر شاہد علی پٹواری نے سنبھالی ۔ معطل کیے جانے والے حکومتی ارکان کی جانب سے سپیکر عبدالحکیم کو پاگل قرار دینے کے لیے اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی گئی جو ڈپٹی سپیکر شاہد علی پٹواری نے فوری طور پر منظور کرلی۔
قرار داد منظور ہونے کے بعد اپوزیشن ارکان شدید مشتعل ہو گئے اور مائیکروفون اکھاڑ کر سپیکر ڈائس پر چڑھ گئے اور شاہد علی پٹواری کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
اس دوران ایک پیپر ویٹ ان کے سر پر لگا جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہو گئے۔ کچھ مقامات پر کرسی سر پر لگنے کا ذکر آتا ہے۔ وقوعہ کے دو روز بعد ڈپٹی سپیکر شاہد علی پٹواری انہی زخموں کے باعث ہسپتال میں دم توڑ گئے۔

ہنگامے میں ہلاک ہونے والے شاہد علی پٹواری پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے۔ فوٹو وکیپیڈیا

ڈپٹی سپیکر کے انتقال کے بعد 23 ستمبر کو پولیس نے سپیکر عبدالحکیم کو حکومتی و اپوزیشن ارکان میں غم و غصہ کو بھانپتے ہوئے سپیکر چیمبر میں داخل ہونے سے روک دیا۔ 24 ستمبر کو پولیس نے شاہد پٹواری کے قتل کے الزام میں مشرقی بنگال کے  سابق وزیر اعلیٰ ابو حسین سرکار جنہیں بعد میں ایبڈو کے تحت نااہل قرار دے دیا گیا تھا سمیت دیگر اپوزیشن ارکان اسمبلی کو حراست میں لے لیا۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے صدر سکندر مرزا نے مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کی حکومت ختم کردی۔ اسمبلی تحلیل کرتے ہوئے ملک بھر میں مارشل لا نافذ کردیا اور ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تعینات کر دیا۔ 
اسمبلی ہنگامے میں ہلاک ہونے والے شاہد علی پٹواری پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے۔ انہوں نے 30 سال کی عمر میں 1929 میں شیر بنگال فضل حق کی پارٹی کریشک پرجا پارٹی جوائن کی۔
شاہد علی پٹواری 1955 میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد ڈپٹی سپیکر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی حکومت تھی اور شاہد علی پٹواری اس حکومت کی اتحادی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔

شیئر: