Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ کی ’دائمی جنگوں‘ کا اختتام ہوگیا؟

امریکہ کا افغانستان میں فوجی مشن 31 اگست کو اختتام پذیر ہو جائے گا (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی صدر جو بائیڈن کے افغانستان سے فوجی انخلا کے فیصلے پر جس تیزی سے عمل درآمد ہوا ہے، اس نے سب کو حیران و پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ نے چار سال قبل ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ ’دائمی جنگوں‘ سے تنگ آچکا ہے اور اپنی توجہ روایتی حریفوں چین اور روس کی جانب مبذول کرنا چاہتا ہے۔
ستمبر 2011 کے حملوں کے بعد سے القاعدہ اور داعش کے خلاف جنگوں میں امریکہ کھربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2017 میں اقتدار سنبھالتے ہی امریکہ کی افغانستان میں جاری جنگ کو ’فضول‘ اور ’بے ڈھنگی‘ قرار دیتے ہوئے انخلا کا عہد کیا تھا۔
امریکہ کے افغانستان اور عراق میں ملوث ہونے کے بعد سے غیر ملکی افواج کی مسلسل موجودگی کے باوجود پرشدد واقعات تسلسل سے ہو رہے ہیں اور دشمن کو حتمی طور پر شکست نہیں دی جا سکی ہے۔
سنہ 2020 تک سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی افواج کے انخلا کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رواں سال جنوری میں ٹرمپ کے اقتدار کے اختتام تک عراق اور افغانستان میں صرف ڈھائی ہزار امریکی فوجی باقی رہ گئے تھے۔
نئے امریکی صدر جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کو جاری رکھتے ہوئے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ ’امریکہ کا افغانستان میں فوجی مشن 31 اگست تک مکمل ہو جائے گا۔‘
صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ ’بیس سال پہلے پیدا ہونے والے واقعات سے نمٹنے کے لیے جو پالیسیاں تشکیل دی گئی تھیں، امریکہ ہمیشہ کے لیے ان کے ساتھ جڑا نہیں رہ سکتا۔‘

امریکہ کی کوشش ہے کہ بحیرہ جنوبی چین میں اثرو رسوخ برقرار رکھے (فوٹو: اے ایف پی)

سنہ 2013 میں جب چین کے صدر شی جن پنگ نے فوجی طاقت کا اثر و رسوخ پھیلانا شروع کیا تو امریکی سکیورٹی رہنماؤں نے بھی اپنے خیالات کو تبدیل کیا۔
چین نے امریکہ کے عسکری اثر و رسوخ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بحیرہ جنوبی چین میں موجود جزیروں، ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں فوجی اڈے تعمیر کرنا شروع کر دیے۔
اسی دوران سنہ 2014 میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کریمیا پر قبضہ کرنے کی غرض سے اپنی فوجیں بھجوا دیں اور مشرقی یوکرین میں جاری شورش کی حمایت کی۔ دو سال بعد روس نے مبینہ طور پر امریکی انتخابات پر اثرانداز ہونے کی بھی کوشش کی۔
ساتھ ہی جنوبی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا جو امریکہ کے لیے دھمکی آمیز ثابت ہو سکے۔
سابق صدر ٹرمپ کی سنہ 2017 میں قومی سلامتی کی حکمت عملی نے امریکہ کی نئی سمت کی تصدیق کر دی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’امریکہ کی طاقت، اثر و رسوخ اور مفادات کو چین اور روس چیلنج کر رہے ہیں۔‘

امریکہ روس اور چین پر اپنی توجہ مبذول کرنا چاہتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار میں امریکہ کی نئی ترجیحات کا تعین کر لیا گیا تھا جبکہ صدر جو بائیڈن نے رواں سال مارچ میں اپنی قومی سلامتی پالیسی کے تحت ان ترجیحات کی تصدیق کی۔
صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ ’دنیا بھر میں طاقت کی تقسیم بدل رہی ہے اور نئے خطرات جنم لے رہے ہیں۔‘
افغانستان، عراق اور شام کے بجائے امریکہ کی توجہ یوکرین اور تائیوان پر ہے جہاں مستقبل میں پرتشدد واقعات جنم لے سکتے ہیں۔ دونوں ممالک نے روس اور چین کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ کی جانب سے اعلیٰ درجے کے ہتھیار بھی حاصل کیے ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے ایک نیا دفتر قائم کیا ہے جو چین پر توجہ مبذول رکھے گا۔ امریکی نیوی کے بحری جہاز تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین میں مسلسل گشت کرتے ہیں تاکہ چین کے دعوؤں کو چیلنج کیا جا سکے۔
تاہم پینٹاگون نے واضح کیا ہے کہ ’افغانستان سے فوجوں کے انخلا کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی کوششوں کا اختتام نہیں ہوا، تاہم فضائی اور میزائل حملوں کے ذریعے افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی کا مقابلہ کیا جائے گا۔‘

شیئر: