پاکستان تحریک اںصاف کی حکومت کے تین برسوں میں ادویات کی قیمتوں میں دسویں بار اضافہ کیا گیا ہے۔ حالیہ اضافے کے تحت 90 ہزار ادویات کی قیمتوں میں 11 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب منگل کو وفاقی کابینہ نے ڈرگ پرائسنگ کمیٹی کی سفارشات کے مطابق فیوی پیرا ویر 200 ملی گرام گولیوں سمیت 49 نئی ادویات کی ریٹیل پرائس مقرر کرنے کی منظوری دی دے ہے۔
پاکستان کی ڈرگ پرائسنگ پالیسی 2018 کے تحت ادویہ ساز کمپنیوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ یکم جولائی سے ادویات کی قیمتوں میں مہنگائی کی شرح یعنی کنزیومر پرائس انڈیکس کے تحت اضافہ کر سکتی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
قیمتوں میں کمی: ڈاکٹرز ادویات کے نام نہیں فارمولا تجویز کریںNode ID: 558531
-
لاہور میں ادویات کی دکانیں ڈاکوؤں کے نشانے پر کیوں؟Node ID: 570271
-
پنجاب میں ہربل ادویات کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ کیا؟Node ID: 581371
ڈریگ ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس 90 ہزار ادویات رجسٹرڈ ہیں۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے اپنی ویب سائٹ پر ادویات کی قیمتوں میں کنزیومر پرائس انڈیکس (مہنگائی کی شرح) کے مطابق ازخود اضافے کی اجازت دے دی ہے۔
ڈریپ ویب سائٹ پر ازخود اضافے کا فارم اور 2000 روپے فی ادویہ از خود اضافہ کی فیس مقرر کر دی گئی ہے۔
اس فیصلے کے تحت جن چند اہم ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ان میں ذیابیطس کی انسولین انسولیٹرڈ کی قیمت 756 روپے سے بڑھ کر 806 روپے، مکسٹرڈ انسولین کی قیمت 696 روپے سے 763 روپے اور انسوجیٹ انسولین کی قیمت 607 روپے سے 650 روپے ہو گئی ہے۔
معدے اور آنتوں کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے سیرپ ڈوفلیک کی قیمت 371 سے 397 جبکہ ٹیبلٹس فے موٹ کی قیمت 17 فیصد اضافے کے ساتھ 58 سے 68 روپے اور ایڈوانٹیک کی قیمت 755 سے 820 روپے تک پہنچ گئی ہے۔
جسم میں کولیسٹرول کی مقدار کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال ہونے والی گولیاں اے ٹو اے 50 ملی گرام کے 20 گولی کے پیکٹ کی قیمت 14 فیصد اضافے کے ساتھ 402 سے 457 روپے ہو گئی ہے۔

اسی طرح جسم میں خون، کیلشیئم اور وٹامنز کی کمی روکنے کے لیے استعمال ہونے والی میڈیسن ابوکال کی قیمت 164 سے 180 روپے ہو گئی ہے۔ بخار کے لیے استعمال ہونے والی کانویڈول کی قیمت 180 روپے سے 199 جبکہ اینٹی بائیوٹک ڈیلاسین کی قیمت 491 سے 525 تک پہنچ گئی ہے۔
پاکستان میں اس وقت کئی ادارے کنزیومر پرائس انڈیکس کی شرح کا تخمینہ لگاتے ہیں جن میں ورلڈ بینک اور پاکستان کا ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کو درست مانا اور اہمیت دی جاتی ہے۔
ورلڈ بینک کے تحت پاکستان میں کنزیومر پرائس انڈیکس کی شرح 9 اعشاریہ چار سے 14 اعشاریہ تین فیصد ہے جبکہ ادارہ شماریات کے مطابق یہ شرح 11 اعشاریہ تین فیصد ہے۔ تاہم ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کرتے وقت کچھ ادویات کی قیمتوں میں 17 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ایک اہم مسئلہ رہا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے پہلے وفاقی وزیر صحت عامر محمود کیانی کو قیمتوں میں اضافے پر قابو نہ پانے کی وجہ سے ہی کابینہ سے فارغ کیا تھا۔
گذشتہ تین برسوں میں ادویات کی قیمتوں میں دس مرتبہ اضافہ ہوا۔ دسمبر 2018 میں دو مرتبہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔ 2019 میں جنوری، مارچ، مئی اور نومبر میں یعنی چار مرتبہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

جولائی 2020 اور نومبر 2020 میں بھی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ مارچ اور اب جولائی 2021 میں بھی 14 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
اس حوالے سے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں پاکستان ڈرگ لائرز فورم کے صدر نور محمد مہر نے کہا کہ ’اس وقت ڈریپ کے پاس اگر 90 ہزار ادویات رجسٹرڈ ہیں تو ڈریپ یا صوبائی حکومتوں کے محکمہ صحت کی ویب سائٹس پر کسی ایک بھی دوائی کی قیمت موجود نہیں ہے۔ اس لیے جو اضافہ بظاہر 11 یا 14 فیصد ہے اس میں ادویہ ساز کمپنیوں کے لیے گڑبڑ کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ ڈرگ انسپکٹر اگر چاہے بھی تو اصلی قیمت اور دوائی کے جعلی یا اصلی ہونے کی تصدیق نہیں کرسکتا۔ تمام ادویات کی اصلی قیمت ویب سائٹس پر درج ہونی چاہیے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’موجودہ حکومت ابتدا میں سابق حکومت پر الزام لگاتی تھی کہ انھوں ڈرگ پرائسنگ پالیسی میں از خود اضافے کا آپشن ادویہ ساز کمپنیوں کو دیا تھا جبکہ موجودہ حکومت نے اس میں ترمیم کرکے مزید کام آسان کر دیا کہ پہلے ان کو منظوری لینا پڑتی تھی اب وہ صرف دو ہزار روپے فیس ادا کرکے از خود اضافہ کر سکتے ہیں۔‘
