Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں ہربل ادویات کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ کیا؟

کریک ڈاؤن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مارکیٹ سے غیر مستند ادویات کا خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے محکمہ صحت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے بعد جعلی ادویات کی روک تھام کے لیے اور خاص طور پر مارکیٹ میں موجود ہربل یا دیسی ادویات کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا ہے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق اس میں ہر وہ دوا شامل ہوگی جو پاکستان کی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے منظور شدہ نہیں ہوگی۔ اس سے پہلے مارکیٹ میں ادویات کے معیار سے متعلق وفاقی ادارہ ڈریپ اقدامات کرتا تھا لیکن اب پنجاب کے محکمہ صحت نے بھی کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا ہے۔ 
نوٹیفکیشن میں براہ راست یہ احکامات دیے گئے ہیں کہ ’پنجاب بھر میں غیر قانونی یا بغیرلائسنس کام کرنے والی دواساز کمپنیاں اور دیسی ادویات بنانے والے کارخانوں کے خلاف فوری ایکشن شروع کیا جا رہا ہے۔‘
’بڑے پیمانے پر شروع کیا جانے والا یہ کریک ڈاؤن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مارکیٹ سے غیر مستند ادویات کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔‘
پنجاب کی دوا ساز کمپنیوں نے اس کریک ڈاؤن کو مسترد کیا ہے۔ دوا ساز کمپنیوں کی قانونی امور کی تنظیم پاکستان ڈرگ لائرز فورم کے سربراہ نور مہر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک مزاحیہ نوٹیفکیشن ہے۔ اگر آپ اس کے الفاظ کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ پتا نہیں کتنا عظیم کام کرنے جا رہے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔‘

لاہور ہائی کورٹ میں دوا ساز اداروں اور ڈسٹریبیوشن کمپنیوں نے رٹ دائر کر رکھی ہے کہ ان کو ادویات بنانے کے لائسنس نہیں دیے جا رہے ہیں۔ (فوٹو: لاہور ہائی کورٹ)

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں دوا ساز کمپنیاں مخلتف سلوک کی مستحق ہیں۔ آپ کو پتا ہے کہ پاکستان میں ہربل یا دیسی ادویات کو چیک کرنے یا سرٹیفکیٹ دینے کے لیے کوئی لیبارٹری ہی نہیں ہے۔ نہ ہی کوئی سٹینڈرڈ ہے۔ جو ایک دو بڑی کمپنیاں کام کررہی ان کی رجسٹریشن کسی اور مد میں کی گئی ہے۔ جب نظام ہی وضع نہیں تو آپ کریک ڈاؤن کس چیز کا کر رہے ہیں ۔‘
پاکستان میں ادویات کی رجسٹریشن کے حوالے سے پیچیدگیوں کا یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں بھی ایک مقدمہ چل رہا ہے جس میں کئی دوا ساز اداروں اور ڈسٹریبیوشن کمپنیوں نے اکٹھے رٹ دائر کر رکھی ہے کہ ان کو ادویات بنانے یا فروخت کرنے کے لائسنس نہیں دیے جا رہے ہیں۔
پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے اس پٹیشن کا جواب عدالت میں جمع کروایا ہے جس کی ایک کاپی اردو نیوز نے حاصل کی ہے۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ ’اس وقت تک 15 ہزار ادویات بنانے اور فروخت کرنے کے لائسنس حاصل کرنے کی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔ اور ہر مہینے 15 سو درخواستوں کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔‘ 
کریک ڈاؤن کے حوالے سے ڈپٹی ڈرگ کنٹرولر پنجاب جنید قریشی کا کہنا ہے کہ ’ہم تو قانون پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ابھی نظام وضع ہو رہا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مارکیٹ میں جعلی ادویات کے نام پر عوام میں زہر فروخت کیا جائے۔‘

ڈپٹی ڈرگ کنٹرولر پنجاب جنید قریشی کا کہنا ہے کہ ہم ادویات کو فرداً فرداً لیب نہیں بھیجیں گے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

’موجودہ کریک ڈاؤن میں اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ جن افراد نے اپنی ادویات کی رجسٹریشن کے لیے ڈریپ میں درخواستیں دے رکھی ہیں ان کے کیسز کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں کہ دیسی ادویات یا ہربل میڈیسن کے حوالے سے کوئی لیب موجود نہیں تو اس کے معیار کو کیسے پرکھا جائے گا؟ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس طرح کام نہیں کر رہے کہ ادویات کو فرداً فرداً لیب بھیجیں، ہم تو یہ چیک کریں گے کہ فلاں فیکٹری یا میڈیکل سٹور میں یہ دوائی بن رہی ہے یا پڑی ہے کیا یہ رجسٹریشن کے مرحلے میں ہے یا رجسڑڈ ہے۔‘
’اگر ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوگا تو لازماً وہ غیر قانونی ہوگی اور اس کو سیل کیا جائے گا۔‘ 

شیئر: