Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں بارشوں سے کئی اضلاع میں تباہی، 19 افراد ہلاک

ریڈار سسٹم اور پاک ایران ریلوے نیٹ ورک کی پٹڑی سیلاب میں بہہ گئی۔ فوٹو بشکریہ حکومت بلوچستان
بلوچستان میں مون سون کی بارشوں نے کئی اضلاع میں تباہی مچا دی ہے۔ مکانات کی چھتیں گرنے اور سیلابی ریلوں میں بہنے سمیت مختلف حادثات میں کم از کم 19 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔
دالبندین ایئر پورٹ کا رن وے، ریڈار سسٹم اور پاک ایران ریلوے نیٹ ورک کی پٹڑی کا سینکڑوں فٹ حصہ بھی سیلاب میں بہہ گیا ہے۔
بلوچستان کے وزیر برائے داخلہ ضیاء اللہ لانگو اور پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ بارشوں سے بلوچستان کے چھ اضلاع زیادہ متاثر ہوئے ہیں جہاں امدادی سرگرمیاں شروع کردی گئی ہیں۔ متاثرین کی امداد کے لیے 13 کروڑ روپے کے فنڈز بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے متعلقہ اضلاع کی انتظامیہ کو سروے کرنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے سے بلوچستان کے بیشتر علاقے مون سون کی بارشوں کی لپیٹ میں ہیں جبکہ پیر سے بدھ تک کوئٹہ، سبی، نصیرآباد، جعفر آباد، کوہلو، لورالائی، بارکھان، ژوب، موسیٰ خیل، زیارت، ہرنائی، قلعہ سیف اللہ اور قلعہ عبداللہ میں مزید بارشوں کی پیشنگوئی کی گئی ہے جس کے نتیجے میں سیلابی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
صوبائی ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(پی ڈی ایم اے) کے مطابق بارشوں سے پشین، چاغی، واشک، قلات، کیچ، موسیٰ خیل، خضدار، سبی، جھل مگسی اور بولان میں رابطہ سڑکوں، کھڑی فصلوں، بجلی کی تنصیبات اور لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچا ہے۔
حکام کے مطابق بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث پیش آنے والے مختلف حادثات میں 19 اموات میں چھ کیچ اورپانچ ضلع پشین سے رپورٹ ہوئی ہیں۔ واشک، چاغی اور کوہلو میں دودو، موسیٰ خیل اور لسبیلہ میں ایک ایک شخص کی موت ہوئی ہے۔
جنوب مغربی بلوچستان میں مکران ڈویژن کے ضلع کیچ (تربت) میں سب سے زیادہ چھ اموات ہوئی ہیں۔

مختلف حادثات میں 19 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔ فائل فوٹو اے ایف پی

ڈپٹی کمشنر حسین جان بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ بارشوں کے بعد ضلع کے مختلف علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دو خواتین اور ایک بچے سمیت چار افراد کی موت مرگاپ میں ہوئی جن کی کار سیلابی ریلے میں بہہ گئی تھی جبکہ پانچ افراد کو بچا لیا گیا۔ چار افراد میں سے دو کی لاشیں جمعرات کو اور باقی دو کی لاشیں جمعہ کو نکالی گئیں۔
ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ ایک شخص کی موت ناصر آباد میں سکول کی عمارت منہدم ہونے سے ہوئی جبکہ ایک آٹھ سالہ بچہ بھی تربت میں ندی میں ڈوب کر ہلاک ہوا۔ انہوں نے مزید بتایاکہ بارش کے بعد میرانی ڈیم تقریباً بھر گیا ہے اورپانی کی سطح 235 فٹ تک پہنچ گئی۔ ڈپٹی کمشنر کے مطابق پانی کی سطح مزید دس فٹ بلند ہوئی تو سپل وے کھول دیے جائیں گے۔ 
گوادر اور پسنی میں بھی بارشوں کے بعد ڈیموں میں پانی کی سطح بلند ہوگئی جس سے شہر میں کئی ہفتوں سے جاری پانی کی قلت کے خاتمے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔
کوئٹہ سے متصل ضلع پشین کے علاقے ریگی بوستان میں جمعرات کو شدید بارشوں کے نتیجے میں مکان کی چھت گرنے سے پانچ افراد ہلاک ہوگئے۔ علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق مرنے والوں میں محمد داؤد اور ان کے چار کم عمر بچے شامل ہیں۔ پشین کے علاقے خانوزئی اور ملحقہ علاقوں میں سیلابی ریلوں نے زراعت کو نقصان پہنچایا ہے۔
چاغی کے علاقے دالبندین میں طوفانی بارش کے بعد سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی، درجنوں مکانات منہدم ہوگئے۔ بجلی کے تیس سے زائد کھمبے گر گئے جس کے باعث تیس گھنٹوں تک بجلی کی فراہمی معطل رہی۔

بارشوں سے بلوچستان کے چھ اضلاع زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ فائل فوٹو اے ایف پی

کوئٹہ سے ایران کو ملانے والی ریل نیٹ ورک کی پٹڑی21 مقامات پر تباہ ہوئی ہے۔ ریلوے کے اہلکار نذیر سرپرہ نے بتایا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان ٹرین کی آمدو رفت بند ہوگئی ہے، ریلوے پٹڑی کی بحالی کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔
دالبندین کے اسسٹنٹ کمشنر جاوید ڈومکی کے مطابق دالبندین کے کلی خدائے رحیم میں دیوار گر گئی ملبے تلے دب کر نشے کے عادی دو افراد ہلاک ہوگئے جبکہ دو مختلف مقامات پر گھروں کی چھتیں گرنے سے خواتین اور بچوں سمیت آٹھ افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر دالبندین کا کہنا ہے کہ نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے سروے شروع کردیا گیا ہے۔
کوہلو میں بھی بارشوں کے باعث ندی نالوں میں طغیانی پیدا ہوگئی۔ کوہلو لیویز کنٹرول کے مطابق جمعرات کو ایف سی کے ون کمانڈنٹ ماوند لیفٹیننٹ کرنل فیاض احمد کی گاڑی منجھرہ نالہ میں سیلابی ریلے کی زد میں آکر بہہ گئی۔ حادثے میں دو ایف سی اہلکار ہلاک ہوگئے جن میں سے ایک کی لاش تاحال نہیں ملی جبکہ لیفٹیننٹ کرنل فیاض احمد اور دیگر سپاہیوں کو بچالیا گیا۔ 
سبی میں ضلعی انتظامیہ کے مطابق دریائے ناڑی، تلی ندی اور لہڑی ندی میں اونچے درجے کا سیلابی ریلہ گزر رہا ہے۔ تلی ندی میں آنے والے 52 ہزار کیوسک کے سیلابی ریلے نے یونین کونسل مل کا رخ کر لیا جس سے مل چانڈیا، رضا چانڈیا، چاچڑ،مل بجیری، مل گہرام زئی زیر آب آگئے۔
متعدد مکانات اور ان کی دیواریں گر گئیں، سیلابی پانی میں بہنے سے درجنوں مال مویشی ہلاک ہوگئے جبکہ اناج اور سینکڑوں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں۔

بارشوں سے سڑکوں، کھڑی فصلوں اور املاک کو نقصان پہنچا ہے۔ فائل فوٹو اے ایف پی

ضلعی انتظامیہ کے مطابق دریائے ناڑی کے پانی نے بھی آبادی کا رخ کر لیا جس سے لونی، بکڑا غلام بولک کے گاؤں زیر آب آگئے جبکہ بندات کمزور ہونے سے سبی شہر کو بھی خطرات لاحق ہیں۔
ادھر سبی اور کوہلو کو آپس میں ملانے والی سڑک کو تین دن بعد جمعہ کو آمدو رفت کے لیے بحال کردیا گیا۔
بولان کے ڈپٹی کمشنر صلاح الدین نورزئی کے مطابق بارشوں سے بانا ناڑی، بھاگ اور سنی شوران میں کچھ بولان کے علاقے بالا ناڑی، بھاگ ناڑی اور سنی شوران میں بالائی علاقوں سے آنے والے سیلابی ریلوں کے نتیجے میں کئی دیہات زیرب آب آئے ہیں تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ 
جھل مگسی میں بھی تین روز سے سیلابی صورتحال ہے۔
مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ سب سے زیادہ تحصیل گنداواہ کی یونین کونسل پتری اور کھاری متاثر ہوا جس کا ضلع بھر سے دو دنوں سے رابطہ منقطع ہے جبکہ گنداواہ میں پانچ دنوں سے بجلی بھی غائب ہے جس سے پانی کی قلت پیدا ہوگئی۔

اکثر مقامات پر بجلی نہ ہونے سے پانی کی کمی کا سمان ہے۔ فائل فوٹو اے ایف پی

ضلعی ہیڈ کوارٹر گنداواہ کے جوڈیشل لاک اپ کی دیوار گر گئی۔ پولیس نے لاک اپ میں موجود قیدیوں کو فوری طور پر سٹی پولیس تھانے منتقل کردیا۔ جھل مگسی کے علاقے ہتھیار ی اور کیری میں بھی سیلابی ریلہ داخل ہونے سے متعدد کچے مکانات گر گئے ہیں۔ 
لسبیلہ کی ویراب ندی پار کرتے ہوئے شاہ نورانی جانے والا کراچی کا رہائشی چالیس سالہ شخص سیلابی ریلے میں بہہ کر ہلاک ہوگیا۔ خضدار کی تحصیل وڈھ کے علاقے ساروانہ اور شاہ نورانی میں بند ٹوٹنے سے چھ دیہات زیر آب آگئے اورپانی مکانات میں داخل ہوگیا۔ پیاز، کپاس کی کھڑی فصلوں، زرعی مشینری اور سولر پینلز کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

شیئر: