Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کے سربراہ افغان تنازع کے لیے ’سیاسی حل‘ کے حامی

طالبان اور افغان حکومت کے درمیان دوحہ میں مذاکرات جاری ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ افغان تنازع کے لیے سیاسی تصفیے کے حامی ہیں۔
اتوار کو عیدالضحیٰ کے لیے جاری اپنے ایک بیان میں طالبان سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے افغانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہمارا پیغام یہی ہے کہ غیر ملکیوں پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے مسائل خود حل کریں اور ملک کو موجودہ صورتحال سے نکالیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’امریکہ سمیت عالمی برادری کے ساتھ سفارتی، اقتصادی اور سیاسی تعلقات چاہتے ہیں۔‘
افغان طالبان کے سربراہ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دوحہ میں افغان حکومت کے نمائندوں اور طالبان رہنماؤں کے درمیان بات چیت جاری ہے۔ 
ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے مزید کہا کہ ’ہم بات چیت کے لیے پرعزم ہیں لیکن دوسرے فریق وقت ضائع کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ملک میں موجود سفارت کاروں، سفارت خانوں، قونصل خانوں اور غیرسرکاری اداروں کو اس بات یقین دلاتے ہیں کہ ہماری طرف سے ان کو کسی قسم کا مسئلہ نہیں ہوگا۔‘
افغان حکومت کی جانب سے طالبان سربراہ کے بیان فی الحال ردعمل نہیں آیا۔
گذشتہ کئی مہینوں سے افغان طالبان اور حکومت کے درمیان افغان تنازع کے سیاسی حل کے لیے مذاکرات جاری ہیں تاہم دونوں فریقین کے درمیان کئی معاملات پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے مذاکرات کا تعطل کا شکار بھی رہے ہیں۔
واضح رہے کہ 2017 میں افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی تھی اور دفتر کھولنے کی بھی پیشکش کی تھی تاہم طالبان نے کابل میں افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے انکار کیا تھا۔ 

سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ ’مذاکرات تو دونوں فریقین کے درمیان ہو رہے ہیں لیکن مذاکرات میں فریقین کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔‘ (فوٹو: روئٹرز)

افغان امور کے ماہر اور صحافی طاہر خان نے اردو نیوز کی نامہ نگار رابعہ اکرم خان کو بتایا کہ ’اس بیان میں ایک اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے سیاسی تصفیے کی بات کی ہے لیکن سوال یہ ہے دسواں مہینہ ہے کہ قطر مذاکرات میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی۔‘
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت بھی یہ الزام لگاتی ہے کہ طالبان افغان تنازع کے حل کے لیے وقت ضائع کر رہے ہیں، مطلب یہ کہ دونوں کا موقف ایک ہے تو پھر آگے کیسے بڑھیں گے؟
’اگر جنگ کو ختم کرنا ہے تو فریقین کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا ہوگا۔‘
طاہر خان نے کہا کہ ’طالبان کے سربراہ نے ایک بات کی ہے کہ افغان فوج ہتھیار ڈال دے اور لڑائی سے پیچھے ہٹ جائے تو یہ تو ایک عجیب بات ہے جس کا مطلب ہے کہ طالبان افغانستان پر اپنا کنٹرول حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔‘
افغان امور کے ماہر سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ ’مذاکرات تو دونوں فریقین کے درمیان ہو رہے ہیں لیکن مذاکرات میں فریقین کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر طالبان کہتے ہیں بات چیت کرنا چاہتے ہیں، تو پھر تشدد میں کمی کیوں نہیں کرتے اور سیز فائر کیوں نہیں کرتے۔

شیئر: