Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سالگرہ کا تحفہ، اسرائیلی خاتون نے فلسطینی بچے کو گردہ عطیہ کر دیا

اسرائیلیوں سے رابطے اور تعاون کی حساسیت کے پیش نظر فلسطینی بچے کے خاندان نے نام ظاہر نہیں کیا گیا۔ فوٹو: اے پی
اسرائیلی شہری ادت حارل سیگل نے اپنی پچاسویں سالگرہ پر ایک تحفہ دینے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ یہ تحفہ وہ ایک اجنبی کو دیں گی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اسرائیل کے ایک کنڈر گارٹن سکول میں پڑھانے والی ادت حارل نے امید ظاہر کی ہے کہ ان کا فیصلہ مستقل تنازعے کے شکار علاقے میں سخاوت و فراخ دلی کی مثال قائم کرے گا۔
ادت حارل کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مرحوم دادا کے خیالات سے متاثر ہوئیں جو ہولوکاسٹ میں بچ گئے تھے اور جن کا کہنا تھا کہ زندگی کو بامقصد بنانا چاہیے اور یہودی روایات کے مطابق انسانی زندگی کو بچانے سے بڑی کوئی ذمہ داری نہیں۔

 

اس فلسفے پر عمل کرتے ہوئے ادت حارل نے گردے عطیہ کرنے والے ایک گروپ سے رابطہ کیا اور اپنا گردہ کسی ضرورت مند کو دینے کے لیے ایک طویل عمل کا حصہ بنیں۔
گروپ نے ادت حارل کے گردے کے عطیے کے لیے غزہ کی پٹی میں تین سالہ فلسطینی بچے کو منتخب کیا۔
اسرائیلی خاتون نے فلسطینی بچے کے نام اپنے پیغام میں لکھا کہ ’آپ مجھے نہیں جانتے، مگر بہت جلد ہم ایک دوسرے کے بہت قریب ہوں گے کیونکہ آپ کے جسم میں میرا گردہ ہوگا۔ میں دل کی گہرائی سے یہ امید کر رہی ہوں کہ یہ سرجری کامیاب ہو اور آپ ایک لمبی، صحت مند اور بامعنی زندگی جئیں۔ میں نے خود کو فرسٹریشن اور غصے سے آزاد کرا لیا ہے اور صرف ایک ہی چیز پر نظر ہے۔ میں امن اور محبت پر نظر رکھے ہوئے ہوں۔‘
اے پی کے مطابق یہ پیغام عبرانی زبان میں ہے جس کو فلسطینی بچے کے خاندان کے لیے ان کے ایک دوست نے عربی زبان میں ترجمہ کر کے بتایا۔
اسرائیلیوں سے رابطے اور تعاون کی حساسیت کے پیش نظر فلسطینی بچے کے خاندان نے نام ظاہر نہیں کیا گیا۔
ادت حارل نے فلسطینی بچے کے نام پیغام میں مزید لکھا ہے کہ ’اگر ہمارے جیسے کچھ اور لوگ بھی ہوں گے تو ہمیں کسی چیز کے لیے لڑنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔‘
اسرائیلی خاتون کے فیصلے کی ان کے اہلخانہ کی جانب سے مزاحمت ہوئی۔ ادت حارل کے شوہر اور ان کے 20 سالہ بیٹے نے گردہ عطیہ کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی جبکہ ادت حارل کے والد نے ان سے بات چیت بند کر دی۔
اہلخانہ کے مطابق ادت حارل اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔
ادت حارل کے فیصلے پر عمل اس وقت مزید مشکلات کا شکار ہوا جب فلسطینی حملے میں ان کے تین رشتے دار مارے گئے۔
انہوں نے گردہ عطیہ کرنے کے حوالے سے فیصلے پر کہا کہ ’میرا خاندان اس فیصلے کے خلاف تھا۔ ہر کوئی اس کی مخالفت کر رہا تھا۔ میرے شوہر، میری بہن اور ان کے شوہر، کوئی بھی میرے فیصلے کا حامی نہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب معلوم ہوا کہ ’میرا گردہ فلسطینی بچے کو دیا جائے گا تو کئی ماہ تک یہ بات خود تک ہی رکھی۔‘
’میں نے کسی کو نہ بتایا، میں نے خود کو سمجھایا کہ جب گردہ عطیہ کرنے کے فیصلے پر اتنا ردعمل آیا ہے تو جب یہ معلوم ہوگا کہ میرا گردہ ایک فلسطینی بچے کو لگایا جائے گا تو اس کی سختی سے مخالفت ہوگی۔‘
اسرائیل نے دہائیوں سے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کر رکھا ہے اور صرف سنگین نوعیت کے امراض میں مبتلا گنے چنے مریضوں کو ہی انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔
فلسطینی بچے کے لیے گردے کا انتظام یروشلم کی ایک غیرسرکاری تنظیم کی کوششوں سے ممکن ہوا۔
اے پی کے مطابق غزہ کے فلسطینی بچے کا معاملہ اس لیے بھی پیچیدہ تھا کہ ان کے والد کا گردہ ان کو نہیں لگ پایا اور ان کو ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے بتایا گیا کہ اگر وہ اپنا ایک گردہ کسی اسرائیلی شہری کو عطیہ کریں تو ان کے بچے کے لیے گردے کا حصول ممکن ہو سکے گا۔
یروشلم کی غیرسرکاری تنظیم میٹنیٹ چیم کے چیف ایگزیکٹیو نے بتایا کہ جس روز فلسطینی بچے کو گردہ فراہم کیا گیا ان کے والد نے اپنا گردہ عطیہ کیا جو ایک دو بچوں کی ماں 25 سالہ اسرائیلی خاتون کو لگایا گیا۔

شیئر: