Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بین اینڈ جیری کا ’اسرائیلی بستیوں‘ میں آئس کریم فروخت کرنے سے انکار

فلسطینی وزیر خارجہ نے کمپنی کے فیصلے کو ’اخلاقی‘ اور ’قانونی‘ قرار دے دیا۔ (فوٹو: اے پی)
آئس کریم بنانے والی کمپنی بین اینڈ جیری کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں قائم اسرائیلی آبادیوں میں آئس کریم فروخت نہ کرنے کے اعلان کا فلسطینی گروپ اور سپورٹرز خیر مقدم کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق کمپنی نے اپنے فیصلے کا اعلان پیر کو کیا تھا۔ کمپنی نے کہا تھا ’ ہمارا خیال ہے کہ کہ یہ ہمارے اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا ہے کہ بین اینڈ جیری کی آئس کریم مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فروخت کی جائیں۔ ہم اپنے فینز اور پارٹنرز کی تشویش کو جو کہ وہ ہمارے سے ساتھ شیئر کرتے ہیں تسلیم کرتے ہیں۔
تاہم کمپنی کا کہنا کہ اسرائیل میں آئس کریم کی فروخت جاری رہے گا۔ کمپنی کے اعلامیے پر اسرائیلی اخبار ہرٹز نے سرخی جمائی ’بین اینڈ جیری نے آبادیوں میں اپنی سیل منجمد کر دی۔
فلسطینی نیوز ایجنسی وفا کے مطابق  فلسطینی وزیر خارجہ نے کمپنی کے فیصلے کو ’اخلاقی‘ اور ’قانونی‘ قرار دے دیا۔
اسرائیل وزیر خارجہ یائیر لاپید نے کمپنی کے فیصلے کی مذمت کی۔ ٹوئٹر پر جاری بیان میں ان کا کہنا تھا ’بین اینڈ جیری کا فیصلہ یہود مخالفت، ’بائیکاٹ، ڈس انوسٹ، سنکشن‘ ( بی ڈی ایس) کی تحریک اور اسرائیل اور یہودی مخالف رائے کے سامنے شرمناک پسپائی ہے۔ ہم خاموش نہیں رہیں گے۔
اسرائیل اور فلسطینی ایشوز کے حوالے سے لابنگ فرم جے سٹریٹ کے صدر جیرمی نین ایمی نے یہود مخالفت کے الزام کی تردید کی۔
ان کے مطابق ’جب ایک اہم آئس کریم کمپنی جس کی بنیاد دو یہودی کاروباری افراد نے رکھی تھی فیصلہ کرتی ہے کہ وہ اپنی مصنوعات مقبوضہ علاقوں میں فروخت نہیں کرے گی تو یہ یہود مخالفت (اینٹی سمیٹزم) نہیں ہے۔
’الیکٹرانک انتفادہ‘ کے شریک بانی علی ابو نیماہ نے بھی  یائیر لاپید کے بیان پر ردعمل دیا اور لکھا ’ آئس کریم بھی یہود مخالف ہے۔ رواں سال مئی میں عزہ میں درجنوں بچوں کو مارنے کے بعد بھی اس مجرم اور نسل پرست حکومت کو چین نہیں آیا اور اب یہ بین اینڈ جیری کے خلاف اعلان جنگ کر رہے ہیں۔ کیا یائیر لاپید اس کمپنی کے ہیڈکواٹرز پر بھی بمباری کا حکم دیں گے جس طرح عزہ میں اے پی (نیوز ایجنسی)  کے دفتر کو نشانہ بنایا گیا تھا؟۔‘

لابنگ فرم جے سٹریٹ کے صدر جیرمی نین ایمی نے یہود مخالفت کے الزام کی تردید کی۔ (فوٹو: روئٹرز)

اسرائیلی وزیر خارجہ نے بی ڈی ایس تحریک کی بھی مذمت کی جو کہ اسرائیل کے بائیکاٹ، وہاں سرمایہ کاری نہ کرنے اور اسرائیل پر معاشی پابندی لگانے کی تحریک چلارہی ہے۔  خیال رہے بی ڈی ایس اور آئس کریم بنانے والی کمپنی کے فیصلے کا آپس میں براہ راست کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا ’ امریکہ کی 30 سے زیادہ ریاستوں نے حالیہ سالوں کے اندر بی ڈی ایس مخالف قانون سازی کر چکے ہیں۔ میں ان تمام ریاستوں سے کہنے جارہا ہوں کہ وہ اپنے ان قوانین کا اطلاق بین اینڈ جیری پر کریں۔‘
بی ڈی ایس نے ورمومنٹ میں قائم بین اینڈ جیری  کمپنی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جو کہ برطانوی کمپنی یونی لیور کی ملکیت ہے۔
بی ڈی ایس کے ٹوئٹر ہینڈل پر لکھا گیا کہ ’ بی ڈی ایس کی کئی سالوں کی مہم کے بعد بین اینڈ جیری نے اعلان کیا ہے کہ وہ فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں قائم اسرائیلی بستیوں میں آئس کریم فروخت نہیں کرے گا۔ ‘
سیاستدان اور اسرائیلی پارلیمنٹ میں ’عرب جائنٹ لسٹ‘ کے سربراہ ایمان عودہ نے اپنی ایک تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی جس میں وہ بین اینڈ جیری کی آئس کریم کھاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

بین اینڈ جیری کا فیصلہ فٹ بال کلب بارسلونا  اور بیتار یروشلم کے درمیان دوستانہ میچ کی منسوخی کے بعد سامنے آیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پارلیمنٹ میں ان کے ساتھی عیدہ تومہ سلیمان نے لکھا ’ فیصلہ صیحح اور اخلاقی ہے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقے اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔ اور ان علاقوں میں آئس کریم کی فروخت بند کرنے کا اعلان اسرائیل پر قبضہ ختم کرنے کے لیے دباؤں میں اضافے کا باعث بنے گا۔ امید ہے بین اینڈ جیری کی طرح دوسری کمپنیاں بھی ایسے ہی فیصلے کریں گی۔‘
بین اینڈ جیری کا فیصلہ فٹ بال کلب بارسلونا  اور بیتار یروشلم کے درمیان دوستانہ میچ کی منسوخی کے بعد سامنے آیا ہے۔ سپین کے کلب نے یہ کہہ کر میچ سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا کہ کلب مقبوضہ یروشلم میں میچ نہیں کھیلے گا۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی کلب بیتار یروشلم کے فینز کی نسل پرستانہ نعروں کی ایک تاریخ ہے جس میں وہ عربوں کو قتل کرنے کا کہتے ہیں۔ بیتار واحد اسرائیلی کلب ہے جس نے ابھی تک کسی عرب کھلاڑی کو سائن نہیں کیا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں سنہ 1967 کی جنگ کے نتیجے میں غرب اردن اور مشرقی یروشلم پر اسرائیل قبضے کے بعد وہاں قائم ہونے والی 140 اسرائیلی آبادیوں میں تقریباً چھ لاکھ کے اسرائیلی رہتے ہیں۔
زیادہ تر عالمی برادری ان اسرائیلی بستیوں کو بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی سمجھتی ہے تاہم اسرائیل اس بات سے متفق نہیں۔

شیئر: