Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلامی معیشت کیسے سب کے لیے بہتر مستقبل تعمیر کر سکتی ہے؟

خطرات میں کمی اور کنٹریکٹ بیسڈ ہونے کی وجہ سے اسلامی معیشت کی پراڈکٹس سرمایہ کاری کے لیے بہتر ہیں (فوٹو: عرب نیوز)
اسلامی معیشت کا سرمایہ کاری ماڈل ان افراد کے لیے بہترین ہے جو اپنی رقم کو اخلاقی اور پائیدار طریقے سے استعمال کرنا چاہیں۔
عرب نیوز کی رپورٹ میں ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسلامی معیشت کا سرمایہ کاری ماڈل دنیا کو اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) حاصل کرنے میں معاون ہوسکتا ہے۔
اسلامی معیشت کسی بھی قیمت پر منافع کے مروجہ رجحان کے بجائے مختلف انداز رکھتی ہے۔
یہ کم خطرات والی سرمایہ کاری کو ترجیح دیتی اور سور، الکوحل اور جوئے جیسے شعبوں اور سود سے بچتے ہوئے اخلاقی انداز کو یقینی بناتی ہے۔
موڈیز کے ای ایس جی سلوشنز گروپ میں پارٹنرشپ اور انگیجمنٹ کی سینیئر نائب صدر مارٹینا میکفرسن نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’افزائش کو روکنے کے بجائے سرمایہ کاری کا یہ متبادل انداز ایک تیزی سے بڑھتی ہوئی صنعت بن چکا ہے۔‘
انہیں اور ان کی ٹیم کو توقع ہے کہ اسلامی معیشت کا شعبہ 2030 تک چار ٹریلین ڈالر سے زائد کے اثاثوں کا مالک ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ ’اسلامی معیشت آئندہ دہائی میں مختلف خطوں اور اثاثوں کے شعبوں میں افزائش کا سلسلہ جاری رکھے گی، اسلامی معیشت اور شریعت کے مطابق سرمایہ کاری کے پاس گنجائش ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی پائیدار ترقی کے اہداف سے ہم آہنگ ہو سکے‘۔
سعودی عرب کے ویژن 2030 سے ہم آہنگ پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) 2030 تک خوش حال اور منصفانہ دنیا کا ویژن پیش کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے منصوبے کے تحت سب کے لیے پائیدار مستقبل یقینی بنانے کے لیے ان ایس ڈی جیز کو مزید 17 اہداف میں پھیلایا گیا ہے۔
مرٹینا میکفرسن کے مطابق اسلامی معیشت کی متبادل سرمایہ کاری ماڈل کے مطابق گروتھ رسک میں کمی اور پائیدار و اخلاقی لحاظ سے مناسب مواقع کی تلاش کے طریقوں سے ان اہداف کے حصول میں معاون ہو سکتی ہے۔

اسلامی اقتصادیات مختصر سے عرصے میں 2.1 ٹریلین ڈالر سے زائد کے اثاثوں کی مالک ہو چکی ہے (فوٹو: عرب نیوز)

ان کے مطابق ’ایس ڈی جیز اور اسلامی معیشت مشترکہ بنیادیں اور اقدار رکھتے ہیں۔ یہ اخلاقی طور پر مربوط ہیں، اثاثوں کی بنیاد پر ہیں، رسک اور مواقع کی تنظیم پر فوکسڈ اور شراکت داروں و گڈ گورننس پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔
’اسلامی معیشت کی مصنوعات کنٹریکٹ بیسڈ ہیں اور غیرمتناسب معلومات کا رسک کم کرتی ہیں، جس کی وجہ سے مثبت اثرات کو پسند کرنے والے سرمایہ کار اداروں کے لیے یہ بہترین انتخاب ہے۔‘
مملکت کے ویژن 2030 کی طرح ایس ڈی جیز کے مرکزی اہداف میں سے ایک ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ میکفرسن کے مطابق ’یہ اسلامی معیشت کے لیے اہم شعبہ ہے جہاں وہ ایس ڈی جیز سے ہم آہنگ ہو سکتی ہے۔‘
اسلامی معیشت کے حوالے سے کام کرنے والے ڈی ڈی سی اے پی گروپ کی مینجنگ ڈائریکٹر سٹیلا کوکس نے بھی ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے مسائل سے نمٹنے میں اسلامی معشیت کے کردار کے حوالے سے میکفرسن کے خیالات سے اتفاق کیا۔
انہوں نے ’مشترکہ طور پر اختیار کی جا سکنے والی پریکٹس کے لیے مشترک معیارات، قوانین اور ضابطوں‘ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اسے 2030 کے اہداف کی جانب بڑھنے کے لیے اہم قرار دیا۔
باہمی تعاون سے متعلق انہوں نے کہا کہ ’اسے چیلنج کے بجائے موقع کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ یہ موقع شریعہ کمپلائنٹ اداروں کو بڑے ماحولیاتی اور سماجی مسائل سے متعلق کام کرنے والوں کے ساتھ مزید مل کر کام کا موقع دے گی۔‘
سمک ایتھیکل فنانس کی مینجنگ ڈائریکٹر ثمینہ اکرم نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’اخلاقی بنیادوں پر سرمایہ کاری کی اہمیت اس لیے بھی بڑھی ہے کہ 2018 کے معاشی بحران کے تناظر میں روایتی معاشی نظام سے متعلق افسوسناک حقیقتیں ان کے سامنے کھل کر آئی ہیں۔‘
ثمینہ اکرم کے مطابق نئے ہزاریے سے متعلق نسل نے روایتی سرمایہ کاری کو ’بری قیادت، بیڈ گورننس، جوئے خانوں کی طرح کی بینکاری اور شفافیت نہ ہونے‘ کی وجہ سے ترک کیا ہے۔
ان کے مطابق ’یہ نسل ماحول کو تباہ کرنے میں کوئی کردار ادا کرنے سے بچنا چاہتی ہے۔‘

شیئر: