Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ذہنی مریضوں کا علاج آرٹ سے بھی ممکن ہے: سعودی ماہر نفسیات

نفسیاتی مسئلے کی وضاحت کرنے کا بہترین طریقہ تصاویر کے ذریعے ہے (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب میں ماہرین نفسیات ذہنی صحت کے مسائل میں مبتلا افراد کی مدد کے لیے تخلیقی طریقے تلاش کر رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق رنگوں سے کھیلنے کا فن ایک ایسی  پرسکون سرگرمی ہے جسے کچھ لوگ شوق کے طور پر لیتے ہیں اور کچھ روزی روٹی کے لیے، جبکہ یہ فن ماہرین نفسیات کے ذریعے ذہنی مریضوں کی بحالی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

ماہرین نفسیات مختلف تخلیقی طریقے تلاش کر رہے ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

ماہرین نفسیات تھراپی میں اپنے الگ الگ طریقوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں مملکت میں اس پیشے سے منسلک ماہرین میں یہ رجحان سامنے آیا ہے۔ آرٹ تھراپی کی تعلیم دینے کے مختلف طریقے تلاش کیے جا رہے ہیں۔
آرٹ تھراپی نفسیاتی علاج کی ایک خصوصی شکل ہے، جس میں پریکٹیشنرز تخلیقی آرٹ کا استعمال کرتے ہیں تاکہ نفسیاتی مریضوں کو صحت مند کرنے میں مدد ملے۔
جدہ میں ایک رجسٹرڈ بورڈ سرٹیفائیڈ آرٹ تھراپسٹ راوان باجسیر نے اس آرٹ تھراپی کے عمل سے مریض کو صحت یاب کرنے کو انتہائی مناسب قرار دیا ہے۔
آرٹ تھراپسٹ راون باجسیر نےعرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک ایسا میدان ہے جس کی الفاظ میں وضاحت کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ کتنا موثر ہے، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ جو کوئی بھی آرٹ تھراپی کا تجربہ کرتا ہے وہ اس کے اثرات کو آسانی سے محسوس کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ذہنی تناؤ سے نجات کی تکنیک اور ذہنی بیماریوں کاعلاج کرنے کے لیے بھی موثر اور کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔‘

ایک تصویر ہزار الفاظ  کا مجموعہ ہوتی ہے اور کافی وضاحت کر دیتی ہے (فوٹو: انسٹاگرام)

انہوں نے اپنے کیریئر کے اوائل میں امریکہ میں رہتے ہوئے اس تھراپی سے دو مریضوں کےعلاج میں مدد حاصل کی تھی۔
آرٹ تھراپی کے لیے ان کے پاس آنے والے ابتدائی مریضوں میں سے ایک 55 سالہ خاتون تھیں، وہ کئی بار ہسپتال میں داخل ہوئیں اور مختلف قسم کی تھراپیز سے گزریں۔ اس کے بعد انہوں نے آرٹ تھراپی پر لگاتار 12 سال مشق جاری رکھی اور اب وہ صحت مند ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں سمجھتی ہوں اس میں کامیابی اس بات کی ہے کہ آرٹ تھراپی میں مریض اپنے اظہار کی آزادی رکھتے ہوئے خود کو محفوظ محسوس کرتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میرے لیے سب سے اہم کیس 19 سالہ شخص فیلکس پر کام کرنا تھا، جو ذہنی مریضوں کی بحالی کے مرکز میں علاج کے لیے آیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب اس شخص نے پہلی بار آرٹ تھراپی کے میرے گروپ میں شمولیت اختیار کی تو وہ زیادہ تر عام مریضوں کی طرح تھا۔‘
اس میں علاج کے طریقہ کار کے آغاز میں آرٹ کے لیے درکار کچھ برش، رنگ اور اس طرح کی کچھ  دیگر اشیا ان کے سامنے رکھی جاتی ہیں۔ کچھ تو صرف ان سے کھیلتے ہیں دراصل یہی علاج کا طریقہ کار ہے۔

آرٹ تھراپی کی تعلیم دینے کے مختلف طریقے تلاش کیے جا رہے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

’فیلکس کی ذہنی صلاحیتوں کے ابھارنے کے لیے میں اسے جو چیزیں پیش کیں، ان میں ایک ربڑ کی مہر بھی تھی، میں نے اسے بتایا کہ وہ اسے کیسے استعمال کر سکتا ہے۔ ایک ہفتے تک مختلف کاغذوں پر اس نے تجربات کیے اور یہی اس کے لیے علاج تھا۔‘
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا فیلکس کے فن پارے تخلیق ہونا شروع ہو گئے وہ کافی بہتری کی جانب آ رہا تھا۔
اسی طرح ایک اور ماہر نفسیات 27 سالہ شہد الثنور کو یقین ہے کہ آرٹ معلومات کو ابھارنے اور اپنے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے۔
ماہر نفسیات نےعرب نیوز کو بتایا کہ ’میں عام طورپر اپنے جذبات کا اظہار بھی آرٹ کے ذریعے کرتی ہوں۔ اسی طرح میں نے یہ تہیہ کیا ہے کہ اپنے مریضوں کے احساسات کو بھی فن کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کروں گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں ذہنی مسائل کے شکار افراد کے احساسات کو سمجھنے کے لیے آرٹ کے فن کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کو اس کی تعلیم دینا چاہتی ہوں۔‘
ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ ایسا آرٹ کسی مریض کی صحت یابی اور اس کے علاج  کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ماہرین نفسیات ذہنی صحت کے مسائل میں مبتلا افراد کی مدد کے لیے مختلف تخلیقی طریقے تلاش کر رہے ہیں۔‘
گذشتہ دو سال میں انہوں نے اپنے تجربات پر مبنی آرٹ کے چھ شاہکار تخلیق کیے ہیں۔ وہ انہیں اپنے مریضوں کے لیے فن کی تعلیم کا ذریعہ بنائیں گی۔

ماہر نفسیات کا کہنا تھا کہ تہیہ کیا ہے کہ مریضوں کے احساس کو  فن کے ذریعے ابھارنے کی کوشش کروں (فوٹو: ٹوئٹر)

ماہر نفسیات شہد الثنور نے کہا کہ 2020 اور2021 میں انہیں ذہنی بحالی کی کلاس میں موجود بچوں کی تربیت کے لیے استاد کے طور پر کام کرنے کا تجربہ ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ ’مجھے یہ اندازہ ہوا کہ صرف ایک میں ہی تھی جو سمجھتی تھی کہ ان خصوصی بچوں کے سیکھنے کی صلاحیت میں کوئی کمزوری نہیں۔‘
’میں ان کی آنکھیں، کان اور زبان تھی۔ میں کوشش کرتی تھی کہ تمام اساتذہ، منتظمین اور پرنسپل کو ان کے تمام معاملات سے آگاہ کیا جائے۔‘
ان کے مطابق ’اس تجربے کے ذریعے ان کے درد کو محسوس کرتے ہوئے میں نے یہ لکھا کہ میں مختلف نہیں ہوں، میں صرف منفرد ہوں۔‘
شہد الثنور نے مزید  کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ کسی نفسیاتی مسئلے کی وضاحت کرنے کا بہترین طریقہ تصاویر کے ذریعے ہے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ ایک تصویر ہزار الفاظ  کا مجموعہ ہوتی ہے اور دیکھنے والے کے لیے کافی وضاحت کر دیتی ہے۔‘
 

شیئر: