Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ذہنی امراض سے متعلق بدلتے معاشرتی رویے

ماہرین نفسیات کے مطابق ذہنی مریضوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے (فوٹو: عرب نیوز)
معاشرے نے ذہنی یا نفسیاتی امراض کو ابھی بھی قبول نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ اس مرض کا شکار افراد مدد حاصل کرنے یا علاج کروانے سے کتراتے ہیں۔
سعودی ماہر نفسیات ہائیفہ الکہتانی نے عرب نیوز کو بتایا کہ گذشتہ بیس برسوں میں حالات بہت تبدیل ہوئے ہیں اور نئی نسل ذہنی امراض کا علاج کروانے میں شرم محسوس نہیں کرتی۔
’بیس سال پہلے جب میں نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تو نفسیاتی مریض اپنی شناخت چھپانے کے لیے چہرہ پوشیدہ رکھتے تھے لیکن اب وہ علاج یا مشورے کے لیے بغیر کسی جھجھک کے میرے سینٹر میں داخل ہو جاتے ہیں۔‘
ہائیفہ نے واضح کیا کہ ذہنی امراض کی طرف لوگوں کے رویوں میں تبدیلی ضرور آئی ہے لیکن اس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ اس مرض کے حوالے سے مزید آگہی حاصل کر رہے ہیں اور انہیں یہ احساس ہو رہا ہے کہ ذہنی امراض کسی جسمانی بیماری سے مختلف نہیں۔
ہائیفہ الکہتانی کا کہنا تھا کہ عموماً نظر یا حسد کا شکار افراد سے پھر بھی ہمدردی جتائی جاتی ہے لیکن نفسیاتی مرض میں مبتلا افراد کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ذہنی بیماری کو اس فرد کی شخصیتی کمزوری کا یا پھر کمزور مذہبی عقیدے کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔
ماہر نفسیات ہائیفہ الکہتانی کا ماننا ہے کہ تعلیمی مراکز یا دفاتر میں آگہی کے ذریعے ذہنی امراض کے حوالے سے ’سوشل سٹگما‘ کو کم کیا جا سکتا ہے۔ 
’ڈپریشن میں مبتلا افراد کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک بیماری ہے اور انہیں علاج کی ضرورت ہے۔‘

 نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا افراد علاج سے کتراتے ہیں (فوٹو: ان سپلیش)

انہوں نے کہا کہ اس مرض کی دوائیوں کے بارے میں بھی غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ دماغ کو تباہ کر دیتی ہیں یا پھر ساری عمر ان دوائیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے، ایسی بہت کم دوائیاں دستیاب ہیں جن کی مریض کو عادت ہی پڑ جائے، جو اب استعمال میں بھی نہیں رہیں۔
’جب کسی شخص کو توجہ مرکوز کرنے یا ہمت اور حوصلہ برقرار رکھنے میں مشکل آ رہی ہو  تو پھر دوائی دینا لازمی ہوتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب میں ذہنی امراض کے علاج کے لیے کوگنیٹو بیحویئرل تھیرپی (سی بی ٹی) سب سے زیادہ عام ہے، یہ مؤثرعلاج ہے لیکن ہر ذہنی مریض پر نہیں آزمایا جا سکتا۔

نئی نسل ذہنی امراض کا علاج کروانے میں شرم محسوس نہیں کرتی (فوٹو: ان سپلیش)

سی بی ٹی تھیرپی میں مریض کے ماہر نفسیات کے ساتھ متعدد سیشن ہوتے ہیں جن کے دوران وہ اپنے مسائل پر بات چیت کرتا ہے۔ ہر سیشن کے اختتام پر متاثرہ فرد کو اسائنمنٹ دی جاتی ہے جس میں وہ اپنے احساسات کا اظہار کرتا ہے۔
’اگر کسی شخص کو عوامی خطابت کا خوف ہے، تو ایسے میں تھیرپسٹ متاثرہ شخص کو ایسے تمام حالات قلم بند کرنے کا کہے گا جو اس کے لیے پریشانی یا خوف کا باعث بن جاتے ہوں، آہستہ آہستہ تھیرپسٹ کی مدد سے پراعتمادی حاصل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ آگہی نہ ہونے کی وجہ سے اکثر لوگوں کے خیال میں تھیرپی سیشن کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔

شیئر: