Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کے لیے ’ممکنہ پناہ گزین کا درجہ‘

افغان مترجمین نے تحفظ کے لیے کابل میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ’وہ افغان جنگ میں مدد کرنے والے افغانوں کو ممکنہ پناہ گزین کا درجہ دے رہا ہے۔‘
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق ان میں وہ افغان بھی شامل ہوں گے جنہوں نے میڈیا اور غیر سرکاری اداروں کے لیے کام کیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے پیر کو کہا ہے کہ ’اس اقدام کا مقصد ان افغانوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے جن کو امریکی وابستگی کی وجہ سے خطرے کا سامنا ہو سکتا ہے۔‘
امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کے تحفظ کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کو شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
گذشتہ ہفتے 200 سے زیاد افغان شہری واشنگٹن پہنچ گئے تھے۔ ان میں مترجمین، ڈرائیورز اور دیگر افراد شامل تھے۔
کانگرس نے امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والوں کے لیے سپیشل امیگرینٹ ویزہ متعارف کروایا تھا۔
گذشتہ ماہ نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، اے بی سی نیوز، سی این این، فاکس نیوز اور دیگر میڈیا کے اداروں نے امریکی صدر جوبائیڈن کو افغانوں کے تحفظ کے حوالے سے خطوط بھیجے تھے۔
امریکی صدر سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ افغانوں کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔

افغان صدر نے کہا کہ ’خواتین اور سول سوسائٹی کے کارکنان پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے‘ (فوٹو: روئٹرز)

’افغانستان کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار فوری امریکی انخلا‘

افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے پارلیمان سے خطاب میں کہا کہ ’افغانستان کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار بین الاقوامی افواج کے اچانک انخلا کا فیصلہ ہے‘ تاہم انہوں نے کہا کہ ’چھ ماہ کے اندر صورتح ال کو کنٹرول رکھنے کے لیے ان کے پاس ایک سکیورٹی منصوبہ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکہ نے اس منصوبے کی حمایت کی ہے۔‘
ڈاکٹر اشرف غنی نے کہا کہ ’عسکریت پسندوں نے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ رابطہ نہیں توڑا ہے اور خواتین اور سول سوسائٹی کے کارکنان پر حملوں میں اضافہ کیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ طالبان اور افغان حکومت ایک دوسرے کو قبول کریں اور پرامن حل کے لیے آگے بڑھیں۔‘

شیئر: