Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کی تیاری شروع کر دی؟

وزیراعظم عمران خان جلد اندرون سندھ کا دورہ کریں گے۔ (فائل فوٹو: آن لائن)
پی ٹی آئی حکومت کے تین سال پورے ہونے کو ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے پارٹی الیکشن موڈ میں آ گئی ہے۔ سندھ میں بڑے سیاسی ناموں سے وزیراعظم کی ملاقاتیں اور سابق وزیراعلٰی سندھ ارباب غلام رحیم کی بطور معاون خصوصی برائے سندھ تقرری کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی صوبائی کابینہ میں توسیع کرکے جوابی سیاسی وار کیا ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے الیکشنز میں کامیابی اور سیالکوٹ کے ضمنی انتخاب میں سرپرائز فتح کے بعد حکمران جماعت سیاسی میدان میں جارحانہ مزاج کے ساتھ کھیلنا شروع ہو گئی ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی تین صوبائی وزرا کی چھٹی سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان ملک گیر سطح پر اپنی جماعت کی صفیں منظم کر رہے ہیں۔
چند روز قبل وزیراعظم عمران خان نے اچانک سابق وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کو اپنا معاون خصوصی برائے امور سندھ مقرر کیا تو سیاسی حلقوں میں چہ مہ گوئیاں شروع ہوگئیں کہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے انتخابات میں کامیابی کے بعد کیا وزیراعظم سندھ میں بھی کوئی انتخابی معرکہ دیکھ رہے ہیں۔
اس کے بعد وزیراعظم کی سندھ میں نامور سیاسی شخصیت ڈاکٹر صفدر عباسی سے ملاقات اور پی ٹی آئی کی جانب سے سابق صوبائی وزیر ذوالفقار مرزا سے رابطوں نے بھی سیاسی ہلچل کو مزید بڑھا دیا ہے۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکریٹری ناہید صفدر کے شوہر ڈاکٹر صفدر عباسی کا تعلق سندھ کے نامور سیاسی خاندان سے ہے۔
ان کے بھتیجے معظم عباسی ابھی بھی لاڑکانہ سے ایم پی اے ہیں جبکہ ان کی والدہ اور سابق ڈپٹی سیپیکر قومی اسمبلی بیگم اشرف عباسی پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیوں میں سے ہیں۔

سندھ میں الیکٹ ایبلز پر پی ٹی آئی کی نگاہ

گذشتہ چند ہفتوں سے پی ٹی آئی سندھ میں پوری طرح سرگرم ہوچکی ہے۔ اس سلسلے میں عمران اسماعیل کی قیادت میں سندھ کا گورنر ہاؤس سیاسی رابطوں کا مرکز ہے۔
گورنر ہاؤس کے ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی سندھ کے شہری علاقوں میں اپنی بنیادیں استوار کرنے کے بعد دیہی سندھ میں اپنا سیاسی اثر بڑھانا چاہتی ہے۔

عمران اسماعیل کی قیادت میں سندھ کا گورنر ہاؤس پی ٹی آئی کے سیاسی رابطوں کا مرکز ہے۔ (فائل فوٹو: گورنر ہاؤس)

اس سلسلے میں پارٹی نے اپنی نگاہ ان سیاسی شخصیات اور مقامی وڈیروں پر رکھی ہوئی ہے جو صوبے کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے مقابلے میں الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر صفدر عباسی کے علاوہ ضلع نوشہرو فیروز کے جتوئی خاندان، گھوٹکی کے مہر خاندان اور بدین سے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے پی ٹی آئی میں شمولیت کے لیے رابطے کیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق پی ٹی آئی کے  اتحادی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ( جی ڈی اے) سے ہے، تاہم ذرائع کے مطابق اب پی ٹی آئی کی خواہش ہے کہ جی ڈی اے میں شامل ان الیکٹ ایبلز کو براہ راست پارٹی میں شامل کیا جائے۔
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اندرون سندھ کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی سہیل سانگی نے کہا کہ 'پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت اب اندرون سندھ اپنی جڑیں قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔'

وزیراعلٰی محمود خان نے بھی صوبائی کابینہ میں ردوبدل کیا ہے۔ (فائل فوٹو: کے پی اپ ڈیٹس)

'ایک تو وقت سے پہلے عام انتخابات اور دوسرا مقامی حکومتوں کے انتخابات۔ اس حوالے سے پارٹی کو انتخابی تیاری کے لیے مضبوط امیدواروں کی ضرورت ہے جن سے رابطہ کیا جا رہا ہے۔'
اس سوال پر کہ پی ٹی آئی اپنی اتحادی جی ڈی اے میں کیوں نقب لگا رہی ہے؟ سہیل سانگی کا کہنا تھا کہ 'جی ڈی اے کی قیادت اب چھوٹے پیر صاحب یعنی پیر پگاڑا پیر صبغت اللہ شاہ کے پاس ہے جن کا سیاسی اثرورسوخ اپنے والد کی طرح نہیں ہے اس لیے پارٹی ان سے فاصلے پر جارہی ہے۔'
دوسری طرف پی ٹی آئی سے باغی ہونے والے جہانگیر ترین نے حال ہی میں اپنے رشتہ دار پیر پگاڑا سے ملاقات بھی کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترین گروپ شاید اب پیر پگاڑا کے ساتھ مل کر چلنا چاہتا ہے جبکہ پی ٹی آئی باقی ماندہ جی ڈی اے کو ضم کرنا چاہ رہی ہے۔'
سیاسی تجزیہ کار رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ 'پیپلز پارٹی 40 سال سے سندھ میں اقتدار میں ہے، اس لیے دیہی علاقوں میں بھٹو کی حمایت ہونے کے باوجود اس کی مقبولیت کم ہو رہی ہے۔'

پی ٹی آئی ذوالفقار مرزا سمیت سندھ کے الیکٹ ایبلز کو اپنے ساتھ ملانا چاہتی ہے۔ (فائل فوٹو: پی پی آئی)

'اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پی ٹی آئی کی حکمت عملی یہ ہے کہ شہری علاقوں میں تو ایم کیو ایم کو ساتھ ملا کر پیپلز پارٹی کا صفایا کر دیا جائے جبکہ دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی سے نالاں سندھ کے وڈیروں کو ساتھ ملائے اور ان کو متبادل راستہ فراہم کرے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'اس سب کا مقصد عام انتخابات کی تیاری ہے کیوںکہ جب حکومتیں تین سال مکمل کر لیتی ہیں تو پھر اگلے الیکشنز کا سوچنا شروع کر دیتی ہیں۔'

پیپلز پارٹی کا جوابی سیاسی وار

سندھ میں پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے صوبے کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی غافل نہیں۔ اسی لیے پارٹی کی جانب سے اپنے معاون خصوصی برائے اطلاعات مرتضیٰ وہاب کو کراچی شہر کا ایڈمنسٹریٹر تعینات کیا گیا ہے تاکہ شہری علاقوں میں پارٹی کو مزید منظم کیا جا سکے۔
دوسری طرف سندھ کی صوبائی کابینہ میں بھی 15 نئے معاونین خصوصی اور چار وزرا کی تعیناتی کا اعلان کیا گیا ہے۔  

پیپلز پارٹی نے بھی صورت حال کو دیکھتے ہوئے صوبائی کابینہ میں 19 ارکان کا اضافہ کردیا ہے۔ (فائل فوٹو: بلاول ہاؤس)

اسی اعلان کے تحت حکومت سندھ نے پہلی بار کراچی کے چار اضلاع، حیدرآباد اور سکھر کے لیے بھی معاون خصوصی مقرر کیے ہیں۔
تجزیہ کار سہیل سانگی کے مطابق 'پیپلز پارٹی نے صوبائی بجٹ اور کابینہ کی توسیع سے پیغام دیا ہے کہ وہ بھی الیکشن موڈ میں چلی گئی ہے۔'
'پچھلے دنوں پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سندھ میں پارٹی کے چیدہ چیدہ رہنماؤں سے ملاقات کی تھی اور سندھ کے وزیراعلٰی مراد علی شاہ نے بھی 2018 کے بعد پہلی بار اپنے حلقے کا دورہ کیا۔'
'ان کے مطابق یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی عام انتخابات سے قبل بلدیاتی الیکشنز بھی کروا دے اور اس بات کا عندیہ وزیراعلٰی نے اپنے حلقے کے دورے کے دوران بھی دیا تھا۔'

خیبر پختونخوا میں تین وزرا کی چھٹی

پاکستان تحریک انصاف نے سنہ 2018 کے انتخابات کے بعد دوسری بار صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی۔ وہاں پر وزیراعظم عمران خان براہ راست حکومتی کارکردگی پر نظر رکھتے ہیں اور حال ہی میں ان کی ہی ہدایت پر تین صوبائی وزرا کو کابینہ سے نکالا گیا ہے۔

 تجزیہ کاروں کے مطابق 'پی ٹی آئی آئندہ کے عام انتخابات کی تیاری کررہی ہے۔' (فائل فوٹو: وزیراعظم آفس)

ان وزرا میں صوبائی وزیر برائے سماجی بہبود ہشام اللہ، وزیر اعلی کے مشیر برائے ریونیو قلندر لودھی اور اسی ہفتے ہٹائے جانے والے وزیر برائے لوکل گورنمنٹ اکبر ایوب خان شامل ہیں۔
اس حوالے سے رابطہ کرنے پر ڈان اخبار کے ریزیڈینٹ ایڈیٹر اسماعیل خان کا کہنا تھا کہ 'کابینہ میں ردوبدل معمول کی کارروائی ہے اور یہ کافی عرصے سے متوقع تھا۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'خیبر پختونخوا پی ٹی آئی میں دھڑے بندی نہیں ہے بلکہ وزرا کو ہٹانے کی وجہ بظاہر ناقص کارکردگی اور کرپشن الزامات ہیں۔'
پشاور سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی جمشید باغوان کا بھی کہنا تھا کہ 'اکبر ایوب کی برطرفی کے حوالے سے کرپشن کے الزامات کے علاوہ ان کی جانب سے بطور وزیر برائے مقامی حکومت ایک نیا قانون لانے کی کوشش بھی تھی۔'
 اس قانون کے تحت میونسپل ایڈمنسٹریشن کو منتخب نمائندوں سے زیادہ اختیارات دیے جانے تھے اور اس قانون کے باعث ان کی سیاسی مخالفت میں اضافہ ہوا تھا۔'
جمشید باغوان کے مطابق 'صوبے میں اکتوبر میں ہونے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات اس لیے بھی اہمیت اختیار کرگئے ہیں کہ تاریخ میں پہلی بار ان الیکشنز کا دائرہ کار سابق فاٹا کے علاقوں تک بھی بڑھایا گیا ہے۔'

شیئر: