Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ای کامرس اور سوشل میڈیا سے کمائی پر ٹیکس،’اس شعبے کو ایک ہی وار سے کچلنے کی کوشش‘

ثاقب اظہر کے مطابق ’حکومت نے ای کامرس کے پودے کو درانتی سے کاٹ دیا ہے۔‘ (فوٹو: انیبلرز)
حکومت نے حالیہ بجٹ میں ای کامرس یا انٹرنیٹ کے ذریعے کاروبار کرنے پر 18 فیصد ٹیکس لگانے کا اعلان کیا ہے۔ اس نئے ٹیکس کی زد میں نہ صرف ای کامرس بلکہ یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا اپلیکیشنز سے پیسہ کمانے والے بھی آئے ہیں۔
پاکستان میں ای کامرس کے شعبہ میں کام کرنے والے ادارے ’اینیبلرز‘ کے سربراہ ثاقب اظہر کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں ای کامرس کا شعبہ ابھی بیج سے پودے میں تبدیل ہوا ہے اور حکومت نے درانتی کے وار سے اسے ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔‘
’ہم ابھی تک اس دھچکے سے باہر نہیں آ پائے کہ اس ٹیکس کو لگاتے ہوئے سٹیک ہولڈرز سے کوئی اِن پُٹ نہیں لی گئی۔ نہ اس شعبے کی کوئی وزارت ہے اور نہ ہی آج تک حکومت نے کسی بھی قسم کی پالیسی وضع کی ہے۔ الٹا ایک ہی وار سے اسے کچلنے کی کوشش ہے۔‘
خیال رہے کہ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں ای کامرس کا شعبہ اس وقت سالانہ چھ ارب ڈالر کی آمدن رکھتا ہے۔ جبکہ 2018 میں یہ آمدن صرف ایک ارب ڈالر تھی۔ اس حساب سے یہ شعبہ پاکستان کے تیزی سے ترقی کرتے شعبوں میں سے ایک ہی جس کی سالانہ شرح نمو 17 فیصد سے زائد ہے۔
حکومتی ٹیکس کے اعلان کے بعد ملک میں ای کامرس کے لیے کام کرنے والے کم از کم چھ اداروں اینیبلرز، چین سٹورز ایسوسی ایشن، ڈی لاجکس، ڈپلائرز، پاکستان فری لانسرز ایسوسی ایشن اور فری لانسرز اینڈ آئی ٹی ایسوسی ایشنز نے یکجا ہو کر اس ٹیکس کی مخالفت کر دی ہے۔ اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ثاقب اظہر کہتے ہیں کہ ’یہ ایسی صنعت ہے جس میں صرف اور صرف پاکستان کا نوجوان طبقہ کام کر رہا ہے اور خود اس کو اپنے پاوں پر کھڑا کیا ہے۔ حکومت تو آج تک اس ملک میں پے پال جیسا پے منٹ گیٹ وے نہیں لا سکی۔ اس وقت دنیا کے 19 ملکوں میں پے پال نہیں ہے اور اس میں ایک پاکستان ہے۔ اور یہ خود حکومت کے اعدادوشمار ہیں کہ گذشتہ سال صرف فری لانسرز 400 ملین ڈالر پاکستان لے کر آئے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ ای کامرس انڈسٹری کی کمر میں ابھی اتنا دم نہیں ہے خود سے 18 فیصد ٹیکس دے سکے اور وہ لامحالہ اس کو صارفین پر منتقل کریں گے، یہ پیسہ عوام کی جیب سے نکلے گا اور بیچنے والوں کی بِکری کم ہو گی، کیونکہ چیزیں مہنگی ہو جائیں گی اور خریداری کم ہو گی۔
لاجکس نامی ادارے کی شریک بانی سحرش کہتی ہیں کہ ’چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں خواتین چھوٹے چھوٹے کاروبار چلانا شروع ہوئی ہیں یہ سب کچھ ان کو بریک لگانے کے مترادف ہے۔ اس وقت 30 سے 40 لاکھ لوگ اس صنعت سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ اس پالیسی سے نیا اور چھوٹا کاروبار کرنے والا بھاگ جائے گا۔ یہ یہ کوئی نیک شگون نہیں ہے۔‘

انفرادی کونٹنٹ بنانے والے یوٹیوبرز بھی اس ٹیکس کی زد میں آئیں گے (فوٹو: پاپسٹرز)

حکومت کے حالیہ ای کامرس ٹیکس سے نہ صرف کاروباری افراد براہ راست متاثر ہوں گے بلکہ انفرادی کونٹنٹ بنانے والے یوٹیوبرز بھی اس کی زد میں آئیں گے۔
ثاقب اظہر کے مطابق ’ہم ٹیکس کے مخالف نہیں ہیں بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک دفعہ اس انڈسٹری کو کھڑا ہو لینے دیں اور اس کی مدد کریں۔ یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا سے کمائی جانے والی رقم پر تو سمجھ میں آتا ہے کہ اس میں کوئی پراڈکٹ نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ اس کو مرحلہ وار کرتی اور ساتھ انڈسٹری کو کھڑا کرنے کی پالیس لاتی۔‘
خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ حکومت نے سوشل میڈیا بشمول یوٹیوب سے پیسے کمانے کو بھی ٹیکس نیٹ میں شامل کیا ہے۔ اور  ایف بی آر بینکوں میں آںے والی رقم کی ڈیجیٹل مانیٹرنگ خود کرے گا۔

 

شیئر: