Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودیوں میں ’اولمپک کا بخار‘ برقرار ہے

ٹوکیو اولمپکس 2020 کے بعد ان کی دلچسی بڑھ رہی ہے(فائل فوٹو عرب نیوز)
ٹوکیو اولمپکس ختم ہونے کے بعد سعودی ایتھلیٹس اب بھی مملکت میں ایک گرم موضوع ہیں اور کھیل میں نئی دلچسپی پیدا کر رہے ہیں جس سے ایتھلیٹس کی ایک نئی نسل کا آغاز ہو سکتا ہے۔
سوشل میڈیا نے ٹوکیو اولمپکس 2020 کو فالو کرنا پہلے سے کہیں زیادہ آسان بنا دیا ہے۔ سعودیوں نے حریفوں کے لیے اپنی سپورٹ دکھائی ہے۔
کراٹے، جوڈو، دوڑ،کشتی رانی،شوٹنگ اور فٹبال۔ سوشل میڈیا ان کھیلوں کی تصاویر اور ایونٹس میں کھلاڑیوں کی کارکردگی سے متعلق اپ ڈیٹس سے بھر گیا ہے۔ کھیلوں کا تجزیہ، ویڈیوز اور بیک سٹوریز بھی موجود ہیں۔
اس معلومات نے حریفوں پر روشنی ڈالی لیکن اس نے مملکت میں ڈیجیٹل طور پر منسلک نوجوانوں کی دلچسپی کو بھی بڑھایا۔
اس دوران والدین اپنے بچوں کو مصروف رکھنے اور اپنے وقت اور صحت کا اچھا استعمال کرنے کے طریقے تلاش کر رہے تھے۔
والدین نے کہا کہ اولمپکس میں سعودی شرکت کو دیکھنے کے قابل ہونے سے ایک نشان بن گیا۔
 ایک نےعرب نیوز کو بتایا کہ ’کچھ بھی ممکن ہے اور میرے بچوں کے لیے ایک موقع ہے اگر وہ اپنا ذہن اس پر ڈالیں، (اپنا) وقت اور کوشش وقف کریں۔‘
ولید المطسیم نے کہا کہ ان کے بچے کسی دوسرے خاندان کی طرح ایک دوسرے سے مختلف تھے۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’میرا سب سے بڑا بچہ ایک ای گیمر ہے۔ میری بیٹی جو سب سے چھوٹی ہے آرٹ سے محبت کرتی ہے لیکن درمیانی بچہ محمد بہت سرگرم ہے۔ وہ کراٹے کی مشق کرتا ہے، اپنی موٹر سائیکل پر سوار ہونا پسند کرتا ہے، ہر ہفتے فٹبال کھیلتا ہے اور اب چار سال سے تیراکی کی مشق کر رہا ہے۔‘
محمد جو 11 سال کے ہیں نے اولمپکس کے دوران مختلف تیراکوں کو دیکھا اور کئی کھیلوں پر تحقیق کی۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ایک کھلاڑی کی حیثیت سے مقابلہ کرنا چاہتا ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا چاہتا ہوں لیکن میں ابھی جوان ہوں، میں ابھی بڑھ رہا ہوں اور میرے کوچ کا کہنا ہے کہ کک کے لیے میری لمبی ٹانگیں ہیں شاید میں ایک دن سعودی ٹیم میں شامل ہو سکوں۔‘
ولید نے کہا کہ اگر میراا بیٹا اس بارے میں سنجیدہ ہوتا تو میں اس پر غور شروع کر دیتا کہ اسے ان پروگراموں میں کیسے داخل کر سکتا ہے۔ ’میں نے جو پڑھا ہے یہ ایک طویل عمل ہے اور یہ صرف ایک دن میں نہیں ہوتا ہے۔ ایک اچھا کوچ ڈھونڈنے کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے، یہ ایک طویل مدتی رشتہ ہے اور میری بیوی اور میں اس کی سپورٹ کروں گا۔‘
رضان احمد ایس نے حال ہی میں اپنے بیٹے اور بھانجی کو آئس ہاکی کی کلاسوں میں داخل کرایا۔ اگرچہ اس نظم و ضبط میں کوئی سعودی اولمپین نہیں ہے لیکن دو بچو ں کی ماں کا خیال تھا کہ کھیل ایک تفریحی اور دلچسپ تھا۔ ان کا بیٹا اور بھانجی ’مائٹی ڈکس‘ فلمیں دیکھنے کے بعد اسے آزمانا چاہتے تھے۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا  کہ ’اس موسم گرما میں بہت سارے کلب آزمائشوں سے بھرے ہوئے تھے۔یہ فٹبال کے لیے بہت گرم تھا، لڑکوں کے لیے کوئی جمناسٹکس نہیں،بچوں کے لیے باسکٹ بال کلبس نہیں ہیں لیکن ہاکی کے بارے میں ایک جاننے والے سے سننے کے بعد میری دلچسپی بڑھ گئی اور اسی طرح بچوں کی بھی۔‘
تمام ’مائٹی ڈکس‘ فلمیں اور کھیل کے تصور کو دیکھنے کے بعد،ٹیم میں شامل ہونے سے پہلے بچے چند ٹیسٹ ٹرائلز سے لطف اندوز ہوئے۔ انہوں نے نوٹس کیا کہ ٹوکیو اولمپکس 2020 شروع ہونے کے بعد ان کی دلچسی بڑھ رہی ہے۔
 

 

شیئر: