Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان حکومت کی طالبان کو شراکت اقتدار کی پیشکش

افغان حکومت نے طالبان کو اقتدار میں شراکت کی پیشکش کردی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قطر میں طالبان سے مذاکرات کرنے والے افغان حکومت کے نمائندوں نے طالبان کو جنگ بند کرنے کے بدلے میں شراکت اقتدار کی پیشکش کر دی ہے۔
اے ایف پی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے ‘افغان حکومت نے اس حوالے سے ایک تجویز قطر کو بطور مصالحت کار پیش کر دی ہے۔ تجویز کے مطابق تشدد بند کرنے کے بدلے میں اقتدار میں شریک ہوں گے۔
دوسری جانب پاکستان کے نیوز چینل اے آر وائی کے ایک پروگرام میں ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ میڈیا سے پتہ چلا ہے کہ اشرف غنی نے اقتدار کی دعوت دی ہے۔ طالبان کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اشرف غنی نے عید کے بعد چھ ماہ تک طالبان کے خلاف حملے کرنے کا اعلان کیا، جس کے ردعمل میں لڑائی کی۔
مذاکرات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ جب امریکی ان سے بات کر سکتے ہیں تو افغان حکومت بھی کر سکتی ہے۔ بقول ان کے ’آئیں ہم سے مذاکرات کریں‘ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’افغان حکومت مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں ہے، افغان نمائندے ایسے بات کرتے ہیں جیسے فیصلے سنا رہے ہوں۔‘
انہوں نے عام لوگوں کے متاثر ہونے کے تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ’نمروز میں جب طالبان داخل ہوئے تو لوگوں نے استقبال کیا، ویڈیوز موجود ہیں۔‘
ان کے بقول ’افغانستان کے 10 صوبے ہمارے قبضے میں ہیں۔‘ انڈیا کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس کی جانب سے افغان حکومت کو اسلحے کی فراہمی افغان دشمنی ہے۔

طالبان ترجمان سہیل شاہیں کا کہنا تھا کہ افغانستان کے 10 صوبوں پر طالبان کا قبضہ ہے (فوٹو: اے ایف پی)

مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل نئی حکومت تشکیل دی جائے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

جرمنی کی امداد بند کرنے کی دھمکی

دوسری جانب جرمنی نے کہا ہے کہ اگر طالبان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو وہ افغانستان کو دی جانے والی مالی امداد بند کر دے گا۔

اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو ماس نے جرمن ٹی وی ’زیڈ ڈی ایف‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان جانتے ہیں غیر ملکی امداد کے بغیر افغانستان نہیں چل سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر طالبان نے مکمل کنڑول حاصل کر لیا، شریعت نافذ کی اور اسے خلافت میں تبدیل کیا تو ہم اس ملک کو ایک پیسہ نہیں دیں گے۔‘
جرمنی سالانہ افغانستان کو 50 کروڑ ڈالرز سے زیادہ امداد دیتا ہے اور وہ افغانستان کے لیے سب سے زیادہ امداد دینے والا ملک ہے۔
جرمنی کی فوج نیٹو فورسز کا حصہ تھی اور وہ افغانستان میں جون تک تعینات رہی۔
جرمن ریڈیو سے بات کرتے ہوئے وزیر دفاع اینیگریٹ کریمپ کا کہنا تھا کہ جن مقامی افغان شہریوں نے جرمنی کے ساتھ کام کیا انہیں جرمنی لایا جائے گا اور طالبان ک انتقام سے بچایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم انہیں وہاں سے نکالنے کے لیے پر عزم ہیں، لیکن ان کے وہاں سے نکلنے میں مسئلہ ہے۔‘
افغانستان کے زیادہ تر لوگوں کے پاس پاسپورٹ نہیں ہے اور حکومت انہیں اس کے بغیر ملک نہیں چھوڑنے دے گی۔
’پاسپورٹ کے بغیر لوگ فضائی سفر نہیں کر سکتے۔ وزارت خارجہ اس حوالے افغان حکومت سے بات کرے گی اس پابندی کو ختم کیا جائے۔‘
طالبان کی تیز پیش قدمی کے بارے میں وزیر خارجہ نے امریکہ کی فوج انخلا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس مطلب ہے کہ نیٹو افواج بھی افغانستان سے انخلا کریں گی۔ امریکہ کے بغیر کوئی ملک اپنے فوجیوں کو تحفظ کے ساتھ نہیں بھیج سکتا۔‘

وزارت کے بیان کے مطابق ’ہم اپنے یورپی ممالک کے ساتھ مل کر صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘ (فوٹو اے ایف پی)

افغانستان میں بڑھتے خطرے کے باعث جرمن وزارت خارجہ نے وہاں موجود اپنے شہریوں کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کی ہدایت کی تھی۔
دوسری طرف فرانس نے افغانستان کی صورتحال دیکھتے ہوئے گذشتہ ماہ ان افغان پناہ گزینوں ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا تھا جن کی پناہ کی درخواست رد کر دی گئی تھی۔
فرانسیسی وزارت داخلہ کے مطابق جرمنی اور نیدرلینڈز کی جانب سے اسی طرح کے فیصلے لیے جانے کے بعد فرانس نے بھی گذشتہ ماہ یہ فیصلہ کیا تھا۔
وزارت کے بیان کے مطابق ’ہم اپنے یورپی ممالک کے ساتھ مل کر صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘
افغان شہریوں نے فرانس میں پناہ کے لیے 2020 میں سب سے زیادہ آٹھ ہزار 886 درخواستیں دی تھیں۔
جرمنی اور نیدرلینڈز نے بدھ کو کہا تھا کہ افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے انہوں نے افغان شہریوں کی زبردستی واپسی کا سلسلہ بند کر دیا ہے۔

شیئر: