Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کا کابل پر قبضہ، افغان میڈیا کیا سوچ رہا ہے؟

افغان صحافی خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں اور اپنی شناخت ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں (فوٹو اے ایف پی)
9 مئی2017 کی بات ہے کہ اُس وقت کے افغان مشیر برائے قومی سلامتی سے کابل کا دورہ کرنے والے پاکستانی صحافیوں کے ایک وفد نے ملاقات کی۔ جس میں حنیف اتمر نے افغانستان میں حکومت کے کنٹرول، طالبان اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے بارے میں بریفنگ دی۔
ایک لمبے میٹنگ ٹیبل کی صدارتی کرسی پر براجمان حنیف اتمر، جو ایک ٹانگ سے معذور ہیں، نے اپنی لاٹھی ایک طرف کی اور کرسی سے اٹھ کر وائٹ بورڈ کے پاس پہنچے اور ایک گول دائرہ کھینچ کر کہا کہ ’فرض کیجیے یہ افغانستان ہے۔
اس کے بعد انہوں نے اس دائرے کو تین مختلف حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے کہا کہ ’70 فیصد علاقے پر اس وقت اشرف غنی کی افغان حکومت کا کنٹرول ہے۔ 15 سے 20 فیصد پر طالبان قابض ہیں جو مسلسل پسپا ہو رہے ہیں، جبکہ باقی 10 سے 15 فیصد پر داعش سمیت دیگر علاقائی شدت پسند تنظیمیں قابض ہیں۔
اس وقت ان کا اعتماد اور لہجہ بتا رہا تھا کہ شاید اب طالبان دوبارہ کبھی سر نہیں اٹھا سکیں گے۔ عین اس وقت کابل شہر میں ایک دارالحکومت کی ساری رونقیں بحال تھیں۔ شاہراہوں پر رش، سرکاری دفاتر میں معمول کے سرکاری کام، بازاروں میں خریداری اور جدید کنسٹرکشن کا کام جاری تھا۔
میڈیا بھی سرکاری زبان بول رہا تھا اور اشرف غنی کی حکومت کو مضبوط ترین حکومت دکھا رہا تھا۔
لیکن 15 اگست اتوار کے دن طالبان کی اچانک کابل آمد نے نہ صرف افغان حکومت کے اس وقت کے اندازوں کو غلط ثابت کر دیا بلکہ حال ہی میں بھی حکومت کی جانب سے طالبان کے حوالے سے سامنے آنے والے دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے۔
افغان طالبان کی جانب سے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد پہلی صبح کابل نے شاید کافی سال بعد دیکھی ہے کہ جب سڑکیں سنسان، شہر ویران اور طالبان کے عام معافی اعلان کے باوجود خوف کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔
اس صورت حال میں افغان صحافی خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں اور اپنی شناخت فوری طور پر ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اردو نیوز نے کابل میں افغان صحافیوں سے رابطے کیے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ حالات بتانے کو تو تیار ہیں، لیکن وہ نہیں چاہتے کہ صورت حال کے کسی کروٹ بیٹھنے تک ان کی شناخت ظاہر ہو۔
ایک عالمی ادارے سے وابستہ صحافی عبدالستار افغان نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’طالبان کی آمد اگرچہ غیر متوقع تھی، لیکن سب سے زیادہ غیر متوقع یہ ہوا کہ انہیں کسی قسم کی مزاحمت نہیں کرنا پڑی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ انھیں باقی صوبائی ہیڈ کوارٹرز کی طرح آسانی سے کابل پر قبضہ نہیں کرنے دیا جائے گا۔ اس سے عوام میں مایوسی پھیلی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’چونکہ اشرف غنی حکومت کا سارا زور کابل پر تھا اور یہاں کے لوگ ان سے مطمئن تھے کہ ترقی کی سمت جا رہے تھے۔ اسی وجہ سے یہ لوگ طالبان کے خلاف تھے اور اس کا اظہار بھی کھل کر کرتے تھے۔ اب جب طالبان شہر میں موجود ہیں تو لوگ اس خوف سے باہر نہیں نکل رہے کہ کہیں ان سے انتقام نہ لیا جائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شہر ویران اور سنسان ہے۔

صحافی شمس الرحمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ابھی تک طالبان کا رویہ دوستانہ ہے۔‘ (فوٹو یونیورسل ٹی وی)

ایک اور صحافی شمس الرحمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ابھی تک طالبان کا رویہ دوستانہ ہے۔ کوئی ایسا سخت اعلان بھی سامنے نہیں آیا۔ شہر کا منظر یہ ہے کہ کابل کی ٹریفک پولیس غائب ہے اور طالبان ہی گشت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ٹریفک موجود نہیں ہے اس لیے اسے کنٹرول کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔
افغانستان میں میڈیا کے مستقبل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’طالبان نے ایک آدھ چینلز سے سرکاری اسلحہ اور گارڈز واپس لے لیے ہیں۔ تاہم انھیں سیکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ افغان میڈیا چونکہ طالبان اور ان کے حامیوں کے خلاف رہا ہے اس لیے اب خود کو خطرے میں محسوس کر رہا ہے۔ تاہم طالبان کی جانب سے کسی چینل کو بند کرنے یا نشریات کے بارے میں کوئی ضابطہ اخلاق جاری نہیں کیا گیا۔
پاکستانی صحافی انس ملک گزشتہ کچھ ہفتوں سے افغانستان میں موجود ہیں اور موجودہ صورت حال کے بارے میں رپورٹنگ کر رہے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ خدشہ تھا کہ طالبان کابل پہنچ کر اپنے اسلامی قوانین پر عمل در آمد کے لیے سخت رویہ اپنائیں گے۔ عوام کے ساتھ ان کا سلوک بھی اچھا نہیں ہوگا، لیکن ابھی تک صورت حال اس کے برعکس ہے۔
ان کے مطابق ’افغان حکومت کے سارے دعوے طالبان کی گزشتہ دس دن کی مہم کی وجہ سے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
’طالبان کی آمد کے بعد شہر میں خوف کی فضا ہے۔ گھروں سے باہر خواتین بالکل بھی نظر نہیں آ رہیں۔ افغان آرمی کی جگہ طالبان آرمی ٹینکوں میں شہر کا گشت کر رہے ہیں۔ وہ لوگوں سے گفتگو بھی کر رہے ہیں اور جہاں ضرورت پڑتی ہے اپنا سخت والا رویہ بھی دکھا رہے ہیں۔ لوگ فی الوقت خود کو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں۔

شیئر: