Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیلفیاں اور نیوز پیکج: طالبان نے صحافت کیسے سیکھی؟

افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضے کے ایک روز بعد پیر کو طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پر دو ویڈیوز شیئر کیں جو کسی ٹی وی چینل کی ویڈیوز سے مختلف نہیں تھیں۔
بس فرق یہ تھا کہ ان میں دکھائے گئے ’رپورٹرز‘ طالبان اہلکار تھے جو مائیک ہاتھ میں پکڑے کابل کے ایک چوک پر کھڑے ہو کر لوگوں سے رائے لے رہے تھے اور حالات سے آگاہ کر رہے تھے۔
یہ پہلی دفعہ نہیں تھا کہ طالبان نے میڈیا کے شعبے میں کسی نیوز چینل کی طرح کام کرکے دکھایا ہو بلکہ ریڈیو، ڈیجیٹل میڈیا اور خاص کر سوشل میڈیا کو انہوں نے امریکہ اور افغان حکومت کے خلاف جنگ کے دنوں میں بھی بھرپور طریقے سے استعمال کرکے مبصرین کو حیران کر دیا تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ وہی تنظیم ہے جس کے سربراہ ملا عمر اپنے دور حکومت میں اپنی تصویر تک بنوانا پسند نہیں کرتے تھے اور اسے غیر شرعی سمجھتے تھے۔  
گذشتہ کچھ ہفتوں میں طالبان کی طرف سے صحافیوں کو بھیجی جانے والی ویڈیوز میں اضافہ ہو گیا تھا جن میں طالبان کی مختلف صوبوں میں فتوحات کو بہت مہارت سے دکھایا جاتا تھا جسے وہ سیاسی مقاصد اور پروپیگنڈا کے مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔
طالبان کی افغان اور امریکی فوج کے زیر استعمال ہیلی کاپٹرز، بکتر بند گاڑیوں اور فوجی آلات کے ساتھ طالبان کی رننگ کمنٹری کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔
اسی طرح مزار شریف اور دیگر علاقوں سے مفتوحہ محلات اور گورنر ہاؤسز میں بنائی گئی ویڈیوز بھی شیئر کی گئیں۔
اسی طرح طالبان نے افغانستان کے شہر پل خمری پر قبضے کے بعد عوام کے ساتھ سیلفیاں بھی بنائیں۔
پیر کے روز طالبان کے گذشتہ دور میں نیشنل ریڈیو اور ٹیلی وی کے ڈائریکٹر رہنے والے مولوی اسحاق نظامی نے شمشاد ٹی وی کے سٹوڈیو سے اپنا پیغام بھی نشر کروایا۔
 اس پیغام میں انہوں نے کہا کہ 'طالبان نے عام معافی کا اعلان کر رکھا ہے اس لیے تمام سرکاری ملازمین کو آ کر بلاخوف کام جاری رکھنا چاہیے۔'
طالبان نے ابلاغی جنگ پر کافی توجہ دی
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے افغان امور کے ماہر اور انڈیپینڈنٹ اردو کے ایڈیٹر ہارون رشید نے بتایا کہ 'وقت کے ساتھ ساتھ طالبان نے سمجھ لیا کہ جدید دور میں میڈیا اور سوشل میڈیا اہم ہے۔'
'یہی وجہ ہے کہ اب ان کی طرف سے پیشہ ور میڈیا کے اداروں کی طرح ہی ویڈیو پیکجز بنائے جاتے ہیں۔ ان کی پبلک ریلیشن مہارت نے کئی ملکوں کی سرکاری پی آر کمپنیوں اور محکموں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'سوشل میڈیا پر ایک اکاؤنٹ بند کریں تو دوسرا کھل جاتا ہے اور پیغام آگے پہنچ جاتا ہے۔ ان کی ویب سائٹس پر اردو ، انگریزی، پشتو اور دری زبانوں میں مواد دستیاب ہے اور ان کے پاس پڑھے لکھے میڈیا ماہرین بھی موجود ہیں۔'

 طالبان نے افغانستان کے شہر پل خمری پر قبضے کے بعد عوام کے ساتھ سیلفیاں بھی بنائیں (فائل فوٹو: ای پی اے)

 ہارون رشید کے مطابق 'پاکستان کے برعکس افغانستان میں ریڈیو بہت مقبول ہے۔ طالبان نے افغانستان میں ریڈیو کے میڈیم کو بہت اچھی طرح استعمال کیا۔'
’مجھے یاد ہے کہ نوے کی دہائی میں جب میں افغانستان گیا تھا تو وہاں ملا عمر ہر رات ریڈیو پر افغان عوام سے مخاطب ہوتے اور حکومتی پالیسی سے آگاہ کرتے، اس طرح وہ براہ راست عوام سے رابطے میں رہتے تھے۔'
سویڈن میں مقیم عبدالسید ایک سکیورٹی ماہر ہیں جو جنگجو گروپوں کے میڈٖیا کے استعمال کے حوالے سے تحقیق کرتے ہیں۔انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'افغان طالبان نے نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے خلاف مزاحمت شروع کرنے کے بعد عسکری کارروائیوں کے علاوہ میڈیا اور ابلاغی جنگ پر بھی کافی توجہ دی۔'
'اس سلسلے میں سب سے پہلے 2006 کے قریب افغان طالبان کے مشہور کمانڈر ملا داد اللہ جن کے القاعدہ کے ساتھ قریبی روابط تھے، انہوں نے ملٹی میڈیا شاخ کی ابلاغی جنگ کو القاعدہ ماہرین کے ذریعے کافی جدت دی۔'

ماہرین کے مطابق 'طالبان نے میڈیا اور کلچر کے نام سے ایک بڑا کمیشن بھی قائم کیا ہے' (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ 'اس کے ساتھ طالبان نے میڈیا اور کلچر کے نام سے ایک بڑا کمیشن بھی قائم کیا ہے جو اب ان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے تحت کام کرتا ہے جس میں ملٹی میڈیا سمیت کئی دیگر شعبے ہیں۔'
'طالبان کے ساتھ اس محاذ پر عصری علوم اور ٹیکنالوجی سے آراستہ کافی اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوان بھی ہیں جنہوں نے میڈیا اور ابلاغی محاذ پر کئی برسوں سے طالبان کی جنگ کو کافی بڑھایا۔'
عبدالسید کا کہنا ہے کہ 'اس لیے اب جو طالبان منٹوں میں جنگی محاذ اور اب سیاسی پیش رفت کی ویڈیوز قسم قسم کے ذرائع اور انداز سے سوشل میڈیا پر نشر کرتے ہیں تو اس کے پیچھے ان پچھلے کئی برسوں کی اس محنت کا عمل دخل ہے۔'

شیئر: