Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان میں طالبان کی حکومت پاکستان کے لیے کیسی خبر ہے؟

جنرل (ریٹائرڈ) اعجاز اعوان ’افغان طالبان ہی افغان سرزمین کی بہتر ضمانت دے سکتے ہیں۔‘ (فوٹو اے ایف پی)
افغانستان کے دارالحکومت کا انتظام سنبھالنے کے بعد یہ واضح ہو چکا ہے کہ کم از کم مستقبل قریب میں طالبان ہی ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہوں گے۔
افغانستان کا سب سے بڑا پڑوسی ہونے کے ناطے سرحد پار اس بڑی تبدیلی سے پاکستان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان کا آنا پاکستان کے لیے ایک اچھی خبر ہے یا بری۔
اگرچہ پیر کے روز وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ ’افغانستان والوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔‘ ان کے اس بیان کو کچھ تجزیہ کار طالبان کی حمایت قرار دے رہے ہیں، تاہم چند دن قبل غیر ملکی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ اگر افغان طالبان نے تنہا فوجی طاقت سے حکومت بنائی تو اس سے خانہ جنگی ہوگی اور یہ پاکستان کے لیے بھیانک خواب ہوگا۔‘
اسی وجہ سے اس معاملے پر غور کے لیے پیر کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی ہوا جس میں کابینہ ارکان کے علاوہ مسلح افواج کے سربراہان بھی شریک تھے۔
اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق پاکستان نے کہا ہے کہ ’وہ تمام لسانی گروہوں کو شامل کر کے سیاسی تصفیے کے ذریعے افغان مسئلے کے حل کے لیے پرعزم ہے، اور پاکستان کی جانب سے فریقین سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کا احترام کریں، انسانی حقوق کا تحفظ کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغان سرزمین دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہو۔
ماہرین کے مطابق اگرچہ افغانستان میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ اطمینان تو ہوا ہو گا کہ وہاں انڈیا کے قریب اورپاکستان کے مخالف سمجھے جانے والی حکومت اب نہیں رہی، تاہم دوسری طرف یہ تشویش بھی قائم ہے کہ افغانستان طالبان کی کامیابیاں کہیں پاکستان میں ریاست مخالف مذہبی انتہا پسندوں بالخصوص تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی حوصلہ افزائی نہ کر دیں۔‘
شاید یہی وجہ ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے میں بالواسطہ طور پر طالبان سے کہا گیا ہے کہ ’وہ یقینی بنائیں کہ ٹی ٹی پی افغانستان کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال نہ کرے۔‘

’پاکستان کے لیے خوشیاں منانے کا جواز نہیں‘

افغان امور کے ماہر سینیئر صحافی طاہر خان کے مطابق ’طالبان اور پاکستانی قیادت کے درمیان بداعتمادی ہے۔ وہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر پاکستانی قیادت پر زیادہ اعتماد نہیں کرتے چاہے جن میں پاکستان میں سابق طالبان سفیر ملا ضعیف کی امریکہ حوالگی اور پھر طالبان کے سیاسی ونگ کے سربراہ ملا برادر کی پاکستان میں آٹھ سال جیل شامل ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کو اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ وہاں ایک انڈیا نواز حکومت ختم ہو گئی ہے، تاہم طالبان سے بھی یہ توقع رکھنا غلط ہو گا کہ پاکستان کی وجہ سے کبھی انڈیا سے تعلق نہیں قائم نہیں کریں گے۔‘

اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ ’غنی حکومت پاکستان مخالف تھی اور طالبان کے آنے سے حالات بہتر ہوں گے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

طاہر خان کے مطابق پاکستان نے طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد افغان اولسی جرگہ کے سپیکر میر رحمان رحمانی کی قیادت میں آنے والے وفد کی میزبانی کرکے بھی غلطی کی ہے، کیونکہ وفد میں غیر پشتون رہنما ہیں جو طالبان مخالف سمجھے جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ وفد میں محمد یونس قانونی، استاد محمد کریم، احمد ضیا مسعود، احمد ولی مسعود، عبداللطیف پیدرام اور خالد نور شامل ہیں۔  
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ لوگ پہلے پاکستان نہیں آتے تھے، لیکن جب کابل ہاتھ سے نکلا تو پاکستان آنے پر آمادہ ہوئے۔ پاکستان کو چاہیے تھا کہ ان کو کہتا کہ کابل میں حالات تبدیل ہو گئے ہیں اس لیے کچھ دن انتظار کریں۔‘

’ہمیں طالبان کی ضمانت پر اعتماد رکھنا چاہیے‘

تاہم دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل (ریٹائرڈ) اعجاز اعوان طالبان کے پاکستان سے بہتر تعلقات کے حوالے سے خاصے پرامید ہیں۔
نجی چینل جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’افغان طالبان واحد قوت ہیں جن کا پورے افغانستان پر مضبوط کنٹرول ہے اور ان کی رٹ اشرف غنی حکومت سے زیادہ ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’غنی حکومت پاکستان مخالف تھی اور طالبان کے آنے سے حالات بہتر ہوں گے۔‘
اعجاز اعوان کے مطابق ’افغان طالبان ہی افغان سرزمین کی حفاظت کی بہتر ضمانت دے سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے بھی ان سے ضمانت مانگی۔ روس نے بھی اور چین نے بھی۔‘
 جنرل اعوان کے مطابق ’چونکہ طالبان ضمانت دے رہے ہیں کہ افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی تو ہمیں ان پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اچھی امید رکھنی چاہیے۔‘  

شیئر: