Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: بوتل سے جن کی رہائی

بی جے پی نے حریت کانفرنس کے دھڑوں پر پابندی لگانے کا عندیہ دیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
حریت کانفرنس پر ممکنہ پابندی اور ہنگامی حالات میں افغانستان سے ہندوستانیوں کی واپسی کی خبریں نیوز ایجنڈے پر کچھ یوں چھائی ہوئی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ایک بہت اہم خبر آپ کی نظروں سے بچ گئی ہو۔
اس کی تفصیل ذرا دیر میں بتاتے ہیں لیکن پہلے اس خبر کا ذکر کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی وفاقی حکومت حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں پر پابندی لگا سکتی ہے۔ ہمیں اندر کی بات تو معلوم نہیں لیکن اخبار اور ٹی وی چینل سرکاری ذرائع کے حوالے سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں۔ اس لیے خبر غلط ہونے کا چانس تو نہ ہونے کے برابر ہے۔
لیکن کیا واقعی پابندی لگائی جائے گی اور اس کا فائدہ کیا ہوگا؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ معلوم نہیں کیونکہ جب حکومت نے آئین کی دفعہ 370 کے تحت کشمیر کو حاصل خصوصی رتبہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو پارلیمان میں اعلان سے قبل بڑے بڑے صحافیوں اور حزب اختلاف کی اعلیٰ ترین قیادت سمیت کسی کو بھنک تک نہیں لگی تھی کہ اتنا بڑا اعلان ہونے والا ہے، حریت پر پابندی تو اس کے مقابلے میں چھوٹی سی بات ہے۔
اس لیے اگر حکومت واقعی یہ فیصلہ کرتی ہے تو آپ کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی خبر ہو جائے گی لیکن اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اس کا فائدہ کیا ہوگا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ بظاہر کچھ نہیں کیونکہ کسی بھی تنظیم پر پابندی لگانے کے بعد آپ اس کی قیادت کو گرفتار کر سکتے ہیں اور اس کے اثاثے منجمد یا ضبط کر سکتے ہیں۔ آپ کو لگے گا کہ اعلیٰ قیادت کی گرفتاری کیا کوئی بڑی بات نہیں ہے؟
بات تو بہت بڑی ہے لیکن حریت کے زیادہ تر بڑے رہنما پہلے سے ہی گرفتار ہیں۔ اور جہاں تک فنڈز کا سوال ہے، تو اینفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ منی لانڈرنگ کے الزامات میں صرف حریت ہی نہیں، بعض دیگر سیاسی رہنماؤں کے کھاتوں کی پہلے سے چھان بین کر رہی ہے۔ اگر کوئی جرم ثابت ہوتا ہے تو سخت کارروائی کرنے کے لیے قوانین پہلے سے موجود ہیں۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیری رہنماؤں کو نظر بند کیا گیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس لیے جب حتمی فیصلہ کرنے کا وقت آئے گا تو ہوسکتا ہے کہ حکومت بھی اسی نتیجے پر پہنچے کہ حریت گذشتہ دو برسوں سے تقریباً خاموش ہی بیٹھی ہے، عوام پر اب اس کی گرفت ویسی نہیں جیسے چند سال پہلے ہوا کرتی تھی، اس لیے اسے خاموش ہی بیٹھا رہنے دیا جائے تو اچھا ہوگا۔
اگر یہ فیصلہ کشمیر کے حالات کے پیش نظر کیا جائے گا تو پابندی لگانے کی کوئی تک نہیں ہے، لیکن ذہن میں اگر اتر پردیش کے انتخابات ہیں تو اور بات ہے۔
1977 میں ایمرجنسی کے اختتام کے بعد اندرا گاندھی کو پارلیمانی انتخابات میں کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ملک میں پہلی مرتبہ غیر کانگریسی حکومت بنی اور اس نے ایمرجنسی کے دوران ہونے والی زیادتیوں کی تفتیش کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا اور اندرا گاندھی کو گرفتار کر لیا گیا۔
تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ یہ ایک بڑی بھول تھی کیونکہ اندرا گاندھی جب بھی کمیشن کے سامنے پیش ہوتیں تو اخبارات کے صفحہ اول پر ان کی تصویر چھپتی۔ اور اس طرح وہ سرخیوں اور عوام کے ذہنوں میں قائم رہیں اور لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ حکومت اپنی ناکامیوں اور اندرونی چپقلش کو چھپانے کے لیے انہیں ہراساں کر رہی ہے۔
خیر حکومت جانے کہ اسے کیا کرنا ہے، ہم تو جب تک مانگا نہ جائے مشورہ دینے کے قائل نہیں ہیں۔

انڈیا میں ذات کی بنیاد پر ریزرویشن کی پالیسی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری بڑی خبر یہ ہے کہ ملک کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں اور ان کے ساتھ بی جے پی کے کچھ رہنما بھی، اگلی مردم شماری میں ذات کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک یہ معلوم نہیں ہوگا کہ ملک میں کس ذات کی کتنی آبادی ہے، ان کی فلاح کے لیے موثر پالیسیاں نہیں بنائی جا سکتیں۔
آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ انڈیا میں ذات کی بنیاد پر ریزرویشن کی پالیسی ہے جو 90 کے عشرے میں متعارف کرائی گئی تھی۔ اس وقت وشوناتھ پرتاپ سنگھ ملک کے وزیراعظم تھے۔ تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں میں تقریباً آدھی نشستیں پسماندہ ذاتوں کے لیے مختص ہیں۔
لیکن وفاقی حکومت اس مطالبے کو ٹال رہی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کو لگتا ہے کہ اگر وہ ذات کی بنیاد پر مردم شماری کا مطالبہ کریں گی تو پسماندہ ذاتوں کو یہ پیغام جائے گا کہ وہ ان کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہیں۔ حکومت کو شاید لگتا ہے کہ مختلف پسماندہ ذاتوں کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ ملک کی آبادی میں ان کا کتنا حصہ ہے تو وہ نوکریوں اور داخلوں وغیرہ میں متناسب حصہ مانگیں گی۔
اور یہ آسان کام نہیں ہوگا۔ ایک بار جن بوتل سے باہر نکل گیا تو اسے واپس اندر بھیجنا ناممکن ہوتا ہے۔

تعلیمی اداروں میں تقریباً آدھی نشستیں پسماندہ ذاتوں کے لیے مختص ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انڈیا میں بہت سے لوگ مانتے ہیں کہ ریزرویشن سے پسماندہ طبقات کو فائدہ تو پہنچا ہے لیکن یہ کوئی دائمی پالیسی نہیں ہوسکتی۔ کبھی نہ کبھی اسے ختم کرنا ہی ہوگا۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح کی گنتی سے ذات پات کی سیاست کم ہونے کے بجائے اور بڑھے گی۔ اور اگر نمبر سامنے آنے کے بعد ریزوریشن کا کوٹہ بڑھانے کا مطالبہ زور پکڑتا ہے تو بی جے پی کے لیے منع کرنا مشکل ہو جائے گا۔
مخالفت کی تو الیکشن میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اگر یہ فیصلہ بھی انتخابات کے مدنظر کیا گیا تو اس بات کا کافی امکان ہے کہ بوتل سے جن کی رہائی کا وقت اب دور نہیں۔

شیئر: