Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کمرشل پروازیں نہ ہونے کی وجہ سے افغان شہری زمینی راستوں سے نکلنے کو تیار

امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد کوئی کمرشل پرواز کابل ایئرپورٹ کا رخ نہیں کر رہی ہے جس کے بعد اکثر افغان زمینی راستوں کے ذریعے سرحدی ممالک کا رخ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کابل ایئرپورٹ پر نہ تو کوئی ایئر ٹریفک کنٹرول نظام فعال ہے اور نہ ہی شہریوں کے انخلا کے لیے مزید پروازوں کا بندوبست کیا گیا ہے۔
ایئرپورٹ کے انتظامات چلانے کے حوالے سے طالبان کے قطر اور ترکی کے ساتھ جاری مذاکرات کو حتمی شکل اختیار کرنے میں کئی دن یا ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔
نجی ذرائع سے انخلا کی کوششوں میں شامل افراد نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ اکثر افغان شہری زمینی راستوں کے ذریعے پاکستان یا وسطی ایشیائی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔
پاکستان کے ساتھ ایک اہم سرحدی گزرگاہ طورخم پر جو کہ خیبر پاس کے مشرق میں ہے، ایک پاکستانی عہدیدار نے کہا کہ ’لوگوں کی بڑی تعداد افغانستان کی طرف گیٹ کھلنے کے لیے انتظار کر رہی ہے۔‘
عینی شاہدین نے بتایا کہ افغانستان اور ایران کے درمیان اسلام قلعہ سرحدی چوکی پر بھی ہزاروں افراد کا ہجوم تھا۔
ایران میں داخل ہونے والے آٹھ افراد کے گروپ میں شامل ایک افغان نے کہا کہ ’میں نے محسوس کیا کہ ایرانی سکیورٹی فورسز کے رویے میں افغانیوں کے ایران میں داخل ہونے کے معاملے میں ذرا نرمی آئی ہے۔‘
دوسری جانب جرمنی نے کہا ہے کہ افغانستان میں کام کرنے والی این جی اوز کے لیے کام کرنے والے10 سے 40 ہزار افغان عملے کے ارکان اگر خطرے سے دوچار ہیں تو انہیں جرمنی منتقل کیا جائے گا۔
ازبکستان کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ صرف ان افغانیوں کے لیے فضائی ٹرانزٹ کی اجازت دے گی جو خطرے سے دوچار افراد کی جرمنوں کی فہرست میں شامل ہیں لیکن افغانستان کے ساتھ اس کی زمینی سرحد بند رہے گی۔

افغان شہری حسین کی کہانی

افغان شہری حسین کا شمار بھی ایسے ہزاروں افراد میں ہوتا ہے جو کئی دن تک کابل ایئرپورٹ کے باہر انتظار کرنے کے باوجود کسی خصوصی پرواز میں سوار نہ ہو سکے۔
حسین امریکی فوج کے ساتھ افغانستان میں کام کرتے رہے ہیں اور امریکی پاسپورٹ بھی رکھتے ہیں۔ کئی دن تک امریکی سفارتخانے کو ای میل اور فون کے باوجود انہیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔ 
ایک دن ایک امریکی فوجی نے انہیں فون کر کے بتایا کہ وہ خصوصی پرواز کے ذریعے روانہ ہو سکتے ہیں لیکن انہیں اپنی بچیوں کو چھوڑ کر جانا ہوگا جو امریکی شہری نہیں ہیں۔ حسین کی اہلیہ کورونا وائرس کے باعث جولائی میں فوت ہو گئی تھیں۔

انخلا کے آپریشن کے دوران ایک لاکھ سے زائد شہریوں کو نکالا گیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پیر کی رات کو حسین اپنی بچیوں سمیت کابل ایئرپورٹ کے باہر کھڑے رہے جب تک کہ آخری فوجی طیارے سی 17 نے پرواز نہیں بھری جس کے بعد امریکہ کا 20 سالہ تسلط اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
متعدد افغان شہریوں کی طرح حسین بھی سرحد پار کرنے کے لیے کسی بھی قسم کا خطرہ مول لینے کو تیار ہیں۔
حسین نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اتنا طویل زمینی سفر اپنی بچیوں کے ہمراہ کیسے کریں گے۔
’میں نے خبروں اور اپنے رشتہ داروں سے سنا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں افراد پاکستان کے ساتھ سرحد پر کھڑے انتظار کر رہے ہیں کہ انہیں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔‘
حسین نے بتایا کہ وہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ وہ تاجکستان جائیں یا پاکستان۔
پاکستانی عہدیدار نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ ’غیر ملکی مشنز، بین الاقوامی اداروں یا این جی اوز کے ساتھ کام کرنے والے افغان شہریوں میں سے دو ہزار افراد کو ایک ماہ کے ٹرانزٹ ویزہ پر پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی ہے۔‘

 فوجی انخلا مکمل ہوتے ہی طالبان نے ایئرپورٹ کی سکیورٹی سنبھال لی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سابق افغان فوجی اور حکومتی اہلکاروں کے لیے نجی گاڑیوں یا عوامی بسوں کے ذریعے طالبان کی چیک پوسٹس سے گزرتے ہوئے میلوں دور سفر کسی خطرے سے کم نہیں ہے۔ 
غیر رسمی طریقوں سے امریکی شہریوں اور گرین کارڈ رکھنے والے افغانوں کو باحفاظت نکالنے والے ایک سابق امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ ’ملک کے ارد گرد اب صرف اینٹوں کی دیواریں کھڑی ہیں۔‘
انخلا کے آپریشن سے منسلک ایک امریکی فوجی کا کہنا تھا کہ صرف زمینی راستوں سے ہی افغانستان سے نکلا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ سال کے آخر تک 50 لاکھ افغان ملک چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔

شیئر: