Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’امریکی حکومت نے جھوٹ بولا‘، افغانستان میں پھنسے امریکی شہریوں کا شکوہ

جاوید حبیبی الیکٹریشن ہیں اور وہ 2015 میں سپیشل امیگریشن ویزہ پر امریکہ آئے (فوٹو: اے پی)
امریکہ کے افغانستان چھوڑنے کے آخری دنوں میں جاوید حبیبی کو امریکی حکومت کی طرف سے فون کالز پر وعدہ کیا جاتا رہا کہ انہیں اور ان کی فیملی کو پیچھے نہیں چھوڑا جائے گا۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکہ کے گرین کارڈ ہولڈر جاوید حبیبی کو کہا گیا کہ وہ پریشان نہ ہوں اور گھر پر رہیں انہیں افغانستان سے نکال لیا جائے گا۔
تاہم جاوید حبیبی کا دل اس وقت ڈوبنے لگا جب انہیں خبر ملی کہ کابل ایئرپورٹ سے آخری امریکی پرواز جا چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے ہمارے ساتھ جھوٹ بولا۔‘
پولیٹکل افیئرز کی انڈر سیکرٹری وکٹوریا نولاند نے کہا کہ انخلا کی فلائٹس حاصل نہ کر سکنے والے تمام امریکی شہریوں اور قانونی طور پر مستقل رہائش پذیر افراد کے ساتھ رابطہ کر کے بتایا گیا ہے کہ وہ نکلنے کے راستوں کے حوالے مزید اطلاعات کا انتظار کریں۔
جاوید حبیبی الیکٹریشن ہیں اور وہ 2015 میں سپیشل امیگریشن ویزہ پر امریکہ آئے تھے۔ وہ رواں برس جون میں افغانستان آئے اور ان کی واپسی کے فلائٹ 31 اگست کو تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ 18 اگست کو انہیں امریکی حکومت کی طرف سے ایک ای میل موصول ہوئی کہ ان خاندان کو افغانستان سے نکال لیا جائے گا۔
اس کے بعد آنے والی ای میلز میں کہا گیا کہ وہ ایئرپورٹ پہنچیں۔ انہوں نے دو مرتبہ کوشش کی لیکن لوگوں کے ہجوم کے باعث وہ ایئرپورٹ کے گیٹ تک نہ پہنچ سکے۔
ان کی بیٹی مدینہ، جن کی انگریزی بہت اچھی ہے اور وہ فیملی کی ترجمان کے طور پر کام کر رہی ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کی چھوٹی بہن ہجوم میں پھنسنے والی تھیں۔
اس کے بعد فیملی نے حکومت کو ای میل کی کہ ’یہ بہت خطرناک ہے۔ ہم ہجوم میں نہیں جا سکتے۔‘
25 اگست کے بعد فون کالز آنی شروع ہو گئیں، لیکن وہ افغانستان میں ہی رہ گئے۔
جاوید حبیبی کا کہنا ہے کہ انہیں طالبان نے کوئی دھمکی نہیں دی لیکن وہ پھر بھی خوفزدہ ہیں۔

ایک اور افغان شہری اجمل نے کہا کہ انہیں انتقام کا خطرہ ہے (فوٹو اے پی)

خبروں اور سوشل میڈیا پوسٹس نے انہیں یقین دلا دیا ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے گا، لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ابھی تک کسی کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔
ایک اور افغان شہری اجمل نے کہا کہ انہیں انتقام کا خطرہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان کے 16 افراد کو ایمرجنسی امیگریشن ویزہ دیا گیا تھا۔
اجمل نے امریکی حکومت کی طرف سے بھیجی گئی ای میلز دکھائیں جن میں لکھا تھا کہ ’حامد کرزئی ایئرپورٹ پر کیمپ سیولیوان گیٹ پر پہنچیں۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کے رشتہ دار ایئرپورٹ پہنچے، لیکن طالبان کی فائرنگ اور لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے وہ واپس گھر چلے گئے۔
اجمل کا کہنا تھا کہ انہیں ایک ای میل میں کہا گیا کہ انہیں اور ان کے خاندان کو ایئرپورٹ کے قریب ایک جگہ سے صبح تین بجے لیا جائے گا، لیکن کوئی نہیں آیا۔
اجمل کے بھائی واعظ امریکی شہری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں امریکی حکام کے بارے میں مایوس اور بہت غصے میں ہوں۔ وہ ہر وقت یہی کہتے ہیں کہ ہم اس پر کام کر رہے، لیکن ابھی تک کچھ بھی نہیں ہو سکا۔‘

شیئر: