Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 اعتدال تنظیم کا مقصد عالمی امن کو فروغ دینا ہے، منصور الشمری

نائن الیون کے واقعات نے مسلمانوں کی تہذیبی اقدار پر دردناک حملہ کیا۔ (فوٹو عرب نیوز)
انتہا پسند نظریات کا مقابلہ کرنے کے عالمی مرکز (اعتدال)کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر منصور الشمری نے کہا ہے کہ 11 ستمبر 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے مجرموں نے اپنےعقیدے کی خرابی کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا۔
امریکہ میں نائن الیون حملوں کی20 ویں برسی کے موقع پر ریاض میں عرب نیوز کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے منصور الشمری نے کہا  کہ سعودی عرب نے ان مہلک حملوں کا باعث بننے والے نظریے کا مقابلہ کرنے اور اسے ختم کرنے کے لیے فیصلہ کن انداز میں کام کیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ نیویارک سٹی اور واشنگٹن ڈی سی پر دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں ہونے والے بہت سے اقدامات القاعدہ کے خوفناک تشدد اور مذہبی حوالے کا مقابلہ کرنے کی کوشش تھے۔
واضح رہے کہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے مئی2017 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ  مل کر  ایک تنظیم اعتدال کا افتتاح کیا تھا جو کہ ریاض میں عرب اسلامک امریکن کانفرنس میں شریک ہوئے تھے۔
اس تنظیم کا مقصد لوگوں اور حکومتوں کو انسانیت کے مشترکہ دشمنوں کا مقابلہ کرنے، انتہا پسندانہ نظریات سے لڑنے، رواداری اور اعتدال پسندی پھیلانے اور عالمی امن کے مواقع کو فروغ دینے میں مدد کرنا ہے۔
11 ستمبر کے واقعات نے تقریباً 2 ارب مسلمانوں کی تہذیبی اقدار پر دردناک حملہ کیا کیونکہ دہشت گردوں نے ان کے مذہبی حوالوں کو محدود کر لیا اور انہیں موقع پرستی سے استعمال کرتے ہوئے ایک گھناؤنے جرم کا جواز پیش کیا جس میں کئی مسلمانوں سمیت ہزاروں بے گناہ لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔

مذہبی تعلیمات کی غلط تشریح کو روکنا اور متن کو سمجھنا حقیقی آگہی ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)

موجودہ دور میں نائن الیون حملوں کے علاوہ انتہائی تشدد کے دیگر واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔
دہشت گردوں کے پاس عام طور پر فتح کی کوئی حکمت عملی نہیں ہوتی کیونکہ وہ زندگی کی حفاظت کے لیے نہیں لڑتے۔
اس کے برعکس وہ آپس میں اور دوسروں کے ساتھ، زندگی کے تحفظ کے خلاف لڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد حملوں کے مرتکب بے مقصد متشدد کارروائیوں کے ذریعے اپنی زندگی برباد کر کے وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہو جاتے ہیں۔
دہشت گردوں کی طرف سے ان کی مذہبی تحریروں کی پرتشدد غلط تشریح نے مسلمانوں کی ایک مسخ شدہ ، منفی شبیہ ابھاری جو کہ عوام کے تصور میں  شامل ہوئی ۔

ہم  نائن الیون کی تباہ کن دردناک میراث کو  پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔ (فوٹو عرب نیوز)

اس طرح دہشت گردانہ تشدد جنگوں میں ہونے والےتشدد سے مختلف ہے جس کے ذریعے باقاعدہ فوجیں عام طور پر نقصانات کےحساب کی بنیاد پر میدان جنگ میں فتوحات کا دعویٰ کرتی ہیں۔
سب سے پہلے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ 11 ستمبر کے تباہ کن واقعات کہیں غیب سے نہیں آئے تھے کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے پوری دنیا میں کشیدگی برقرار تھی۔
ہم جانتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ کشیدگی کی اس عمومی حالت کا حصہ تھی۔

غور کرنا چاہیے کہ یہ تباہ کن واقعات کہیں غیب سے نہیں آئے تھے۔(فوٹو عرب نیوز)

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سال11 ستمبر کے حملوں کی یاد کی اہمیت یہ ہے کہ وہ تشدد پسندی کی فضولیت کو تسلیم کریں۔ اس کو روکنے کے لیے بھرپور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ مذہبی حوالوں کی وضاحت کرنا اور ان کی مناسب سیاق و سباق میں تشریح کرنا سیاسی پختگی کے ایک پیمانہ کے حصول کا آغاز ہے۔
اگر ہم ذہنی بے راہ روی کو ختم کرنے اور منحرف نظریات کو روکنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو شاید ہم  نائن الیون کی تباہ کن دردناک میراث کو  پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔
 

شیئر: