Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی ملٹری کمپنی کی سربراہ خاتون ہو سکتی ہیں: سی ای او

سعودی حکومت کی خواتین کو ہر شعبے میں آگے لانے کی کوشش ہے۔ فوٹو: عرب نیوز
سعودی عرب کی ملٹری انڈسٹریز (ایس اے ایم آئی) کے سربراہ نے کہا ہے کہ مستقبل میں کوئی بھی سعودی خاتون اس سرکاری کاروباری ادارے کی سربراہی کر سکتی ہے۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے ایس اے ایم آئی کے سربراہ ولید ابو خالد نے کہا کہ 50 فیصد کا ہدف پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انڈسٹری میں کام کرنے کی غرض سے  بہترین اور لائق افراد کی توجہ حاصل کی جائے اور بیرون ملک کام کرنے والی سعودی خواتین کو بھی واپس بلانے کی ترغیب دی جائے۔
ولید ابو خالد حکومت کے ہدف کا حوالہ دے رہے تھے جس کے تحت سنہ 2030 تک تمام دفاعی اخراجات کا 50 فیصد ملک کے اندر ہی خرچ کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں ایس اے ایم آئی کی چیف ایگزیکٹیو خاتون ہوں گی۔ یہ شاید آئندہ کچھ عرصے میں ممکن نہ ہو سکے، لیکن ایسا ہو گا۔‘
انہوں نے کہا کہ چیف ایگزیکیٹو کے اعلیٰ عہدے پر کسی مخصوص صنف کو نہیں فائز کرنا چاہتے بلکہ کسی بھی فرد کی قابلیت کی وجہ سے انہیں یہ دینا چاہتے ہیں۔
ایس اے ایم آئی کے سربراہ نے کہا کہ خواتین کو سعودی حکومت کی حمایت حاصل ہے۔
دفاعی کمپنی ایس اے ایم آئی 2017 میں لانچ کی گئی تھی جو حکومت کا بیرونی عسکری مصنوعات پر انحصار کم سے کم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
فرانسیسی کمپنی تھیلز اور بیلجیم کی سی ایم آئی ڈیفینس کے ساتھ مشترکہ منصوبے کے معاہدے کر لیے گئے ہیں۔ جبکہ روسی کمپنی روسو بورون، امریکہ کی بوئنگ اور فرانس کے نیول گروپ کے ساتھ مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔

عسکری صنعتوں میں افرادی قوت بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

گزشتہ دو برسوں میں سعودی عرب کی لیبر مارکیٹ میں خواتین کی شمولیت میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے۔ 2018 سے 2020 تک خواتین کی شرکت میں 64 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ایس اے ایم آئی کے سربراہ ولید ابو خالد نے بتایا کہ دفاع کے شعبے کی افرادی قوت میں خواتین کا تناسب 22 فیصد ہے، تاہم ان میں سے زیادہ تر خواتین ہیومن ریسورس، فنانس اور قانونی ڈپارٹمنٹ کے ساتھ منسلک ہیں۔
ابو خالد کا کہنا تھا کہ 2030 تک ایس اے ایم آئی کا شمار دنیا کی 25 بڑی کمپنیوں میں کروانا چاہتے ہیں، تاہم یہ سب اندرونی طور پر کرنا ممکن نہیں ہو گا، اس کے لیے بیرون ممالک سے بھی مدد درکار ہو گی۔
ابو خالد نے کہا کہ انہیں مکمل یقین ہے کہ وہ حکومت کے دفاعی اخراجات کا 50 فیصد مقامی طور پر خرچ کرنے کا ہدف پورا کر سکیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ اگلا ورلڈ دیفینس شو سعودی دارالحکومت ریاض میں مارچ 2022 میں منعقد ہو گا۔
سعودی ملٹری انڈسٹریز دنیا کے سب سے بڑے دفاعی تجارتی شو کی سٹریٹیجک پارٹنر ہیں۔
سعودی عرب کی جنرل اتھارٹی فار ملٹری انڈسٹریز ’جی اے ایم آئی‘ کے گورنر احمد بن عبداالعزیز نے عرب نیوز کو بتایا کہ ان کے ادارے کا ویژن ہے کہ تعلیمی اداروں کے ساتھ شراکت داری کے تحت انجینیئرنگ اور دیگر شعبوں میں ہنر مند کاریگر پیدا کیے جائیں۔

شیئر: