Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’افغانستان سے تجارتی روابط بڑھا کر پاکستان تجارتی خسارہ کم کرسکتا ہے‘

چیمبر کے ایک رکن نے کہا کہ افغانستان پاکستانی برآمدات کا دوسرا بڑا اور اہم ترین مرکز بن سکتا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاک افغان چیمبر آف کامرس کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت افغانستان میں سیاسی اثر و رسوخ کے لیے کوششوں کے ساتھ ساتھ تجارتی روابط بڑھانے پر بھی توجہ دے۔
عہدیداران کے مطابق موجودہ صورتحال میں تجارتی برتری حاصل کر کے پاکستان اپنا تجارتی خسارہ باآسانی کم کر سکتا ہے، جس سے روپے کی قدر بھی مستحکم ہوگی۔
پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر زبیر موتی والا کی زیر صدارت عہدیداران کی بیٹھک کراچی میں منعقد ہوئی جس میں موجودہ تجارتی صورتحال زیر بحث رہی۔
شرکاء کا کہنا تھا کہ افغانستان میں نئی سیاسی حکومت کا قیام پاکستان کے لیے نہایت اہم تجارتی موقع ہے جس سے فائدہ اٹھا کر حکومت افغان مارکیٹ میں اپنا کھویا ہوا مقام بحال کرسکتی ہے۔
زبیر موتی والا نے بتایا کہ انڈیا نے افغانستان میں پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے پاکستان کے لیے خاصی مشکلات کھڑی کر دی تھیں، جس کی وجہ سے گذشتہ چند سالوں میں پاکستان اور افغانستان کے بیچ تجارتی حجم تین ارب ڈالر سے کم ہو کر 70 کروڑ رہ گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت افغانستان میں بینکنگ سسٹم معطل ہے، حکومت اگر افغانستان کے ساتھ پاکستانی کرنسی میں تجارت کی باضابطہ اجازت دے تو محض چند ہفتوں میں یہ حجم دو ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے، جس میں ہر مہینے بتدریج اضافہ ہوگا۔
’وزیر خزانہ شوکت ترین نے پاکستانی روپے میں تجارت کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن چار دن گزرنے کے باوجود سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس حوالے سے نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا۔ اس غیر سنجیدہ رویے سے پاکستان تجارتی موقع گنوا رہا ہے۔‘

انڈیا نے افغانستان میں پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے پاکستان کے لیے خاصی مشکلات کھڑی کردی تھیں۔ فائل فوٹو: ان سپلیش

زبیر موتی والا کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی وزراء سیاسی طور پر خاصی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں، تاکہ افغانستان کی نئی سیاسی صورتحال میں حصہ دار رہیں، لیکن جو اصل فائدہ ہے اسے توجہ نہیں دے رہے۔
’پاک افغان تجارت کا متوقع حجم 10 ارب ڈالر تک ہو سکتا ہے، اگر بروقت فیصلے کر لیے جائیں۔‘
’پچھلی افغان حکومت انڈیا کے زیر اثر تھی، وہ ہمیں وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی نہیں دیتی تھی۔ تاہم نئی افغان حکومت اس وقت تجارتی طور پر غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے ایسے اگر پاکستان حکومتی سرپرستی میں افغانستان کے ساتھ تجارتی روابط قائم کرے تو یہ مستقبل کے لیے نہایت مفید سودا ہوگا۔‘
زبیر موتی والا نے وزیراعظم اور وزیر خارجہ سے اپیل کی کہ وہ سرکاری سطح پر تجارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔
چیمبر کے رکن جنید اسماعیل مکدا نے کہا کہ افغانستان پاکستانی برآمدات کا دوسرا بڑا اور اہم ترین مرکز بن سکتا ہے، موجودہ تجارتی خلاء کو پر کر کے پاکستان ٹریڈ اکاؤنٹ خسارے کے بوجھ کو خاطر خواہ ہلکا کر سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں انڈین مداخلت سے قبل وہاں روزمرہ استعمال کی 90 فیصد اشیاء پاکستان سے جاتی تھیں، جو کم ہو کر 50 فیصد رہ گئیں، موجودہ تجارتی خلاء میں پاکستان 100 سپلائی کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے بیچ تجارتی حجم بڑھ سکتا ہے۔ فائل فوٹو: ان سپلیش

پاک افغان بارڈر چمن سے آئے تاجر رہنما محمد غنی نے بتایا کہ افغانستان میں تجارت کبھی بھی کسی ایک کرنسی تک محدود نہیں رہی، وہ جس بارڈر سے درآمدات کرتے ہیں وہاں اسی کرنسی میں سودے طے کر لیتے ہیں، ایسے میں پاکستانی کرنسی کی اجازت مل جانے سے دونوں جانب تجارت میں آسانی رہے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں سیاسی منظرنامے کی تبدیلی کے بعد بینکنگ سسٹم معطل ہونے سے روزمرہ کی تجارت پہلے کے مقابلے میں ایک چوتھائی رہ گئی ہے، جبکہ چمن بارڈر بھی محض کچھ گھنٹوں کے لیے کھولا جاتا ہے، جس سے بہت سے کنٹینرز بارڈر پر پھنسے ہوئے ہیں۔
سرحد چیمبر آف کامرس سے پاک افغان ٹرانزٹ کمیٹی کے رکن شاہد حسین کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں افغانستان میں بینکنگ اور ادائیگیوں کا نظام معطل ہے جبکہ کیش یا بارٹر میں ٹریڈ کرنے سے تجارتی حجم ایک ماہ میں کم ہوکر آدھا رہ گیا ہے، عارضی طور پر پاکستانی روپے میں تجارت کی اجازت ملنے سے بآسانی تجارتی اہداف حاصل کیے جا سکیں گے۔
ملک میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کو بھی افغانستان کی سیاسی صورتحال سے جوڑا جا رہا ہے، وہاں بینکنگ اور تجارتی نظام معطل ہونے کی وجہ سے پاکستان غیر سرکاری طور پر افغانی تجارت کی ذیلی سروس بنا ہوا ہے۔ تاجر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس ساری صورتحال کو سرکاری سرپرستی میں لے کر بروقت مؤثر فیصلہ سازی کر کے پاکستانی معیشت کو سنبھالا مل سکتا ہے۔

شیئر: