Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی فوجی بیس جہاں افسران افغانوں کو اپنا ’مہمان‘ کہتے ہیں

اس ملٹری بیس میں افسران ان افغانوں کو اپنا ’مہمان‘ کہتے ہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز
امریکہ کی ریاست نیو جرسی میں موجود ملٹری بیس میں ایک مہینہ قبل آنے والے نو ہزار سے زائد پناہ گزینوں کے لیے زندگی کے کچھ معاملات مشکلات کے باوجود رُکے نہیں ہیں۔ ان میں 24 بچوں کی پیدائش، گذشتہ ہفتے ہونے والی شادی کی تقریب اور روز مرہ کے دیگر کام شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جوائنٹ بیس میگوائر ڈیکس لیک ہرسٹ امریکہ میں ان آٹھ جگہوں میں سے ہے جہاں ہزاروں افغانوں کی میزبانی کی جارہی ہے۔ یہ افغان گذشتہ ہفتے ملک پر طالبان کے قبضے کے بعد امریکہ کے حتمی انخلا کے وقت افغانستان چھوڑ کر امریکہ آئے تھے۔
اس ملٹری بیس میں افسران ان افغانوں کو اپنا ’مہمان‘ کہتے ہیں۔
 یوں تو یہاں موجود افغان پناہ گزین یہاں ممکنہ طور پر کچھ وقت کے لیے ہیں، تاہم موجود سفید خیموں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
یہاں رہنے والے پناہ گزینوں کے کپڑے باڑوں پر سوکھتے دکھائی دے سکتے ہیں، جبکہ ہر جگہ بچے کھیلتے اور بھاگتے نظر آتے ہیں۔
ان پناہ گزینوں کو کئی مشکلات کا سامنا ہے لیکن نہ نظر آنے والے چیلنجز میں ذہنی صحت سے متعلق مسائل شامل ہیں۔
خواتین کے لیے مختص ایک ہاسٹل کے باہر امریکی فوج کے ایک افسر نے وزیر دفاع لوائڈ آسٹن کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’یہاں ہر کسی کو افغانستان چھوڑتے ہوئے تکلیف دہ تجربے کا سامنا ہوا ہے۔‘
واضح رہے کہ لوائڈ آسٹن پیر کو نیو جرسی کے علاقے لبرٹی ولیج کا دورہ کر رہے تھے، جہاں پناہ گزین رہ رہے ہیں۔
پیر کو لبرٹی ولیج میں 11 افغانوں پر مشتمل دو خانداںوں کے لیے خوشیاں منائی جا رہی تھیں، جو بیس چھوڑ کر امریکہ میں رہائش پذیر ہونے جارہے تھے۔
پیر کو یہ پہلا دورہ تھا جس میں صحافیوں کو لبرٹی ولیج میں داخلے کی اجازت ملی۔

لوائڈ آسٹن نیو جرسی کے علاقے لبرٹی ولیج کا دورہ کیا جہاں پناہ گزین رہ رہے ہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز

جب افغان پناہ گزین یہاں روانہ ہوئے تو انہیں کلائی میں پہننے کے لیے پٹیاں دی گئیں تھیں جن پر شناختی نمبر درج تھے۔ کچھ افغانوں کو ہاسٹلز میں جگہ مل گئی تھی لیکن باقیوں کو خیموں میں رہنا پڑ رہا ہے، جہاں رہنے والے ہر خاندان کے بیچ صرف ایک کپڑے کا پردہ ہے۔
بیس کے گرد رہنے والی کمیونٹی نے سکول کی اشیا سے لے کر کھلونے اور مصلوں تک کافی سامان عطیہ کیا ہے۔ لیکن فوجیوں کے لیے ان کے انتظامات سنبھالنا ابتدائی طور پر مشکل ہوگیا تھا۔ اسی لیے انہوں نے لوگوں سے گزارش کی کہ سامان کے بجائے پناہ گزینوں کے لیے گفٹ کارڈز دے دیے جائیں۔
ابھی یہ بات واضح نہیں کہ لبرٹی ولیج کب تک قائم رہے گا لیکن امریکی حکومت کے افسران نے وہاں عارضی دفاتر قائم کر لیے ہیں تاکہ افغانوں کے لیے دستاویزی کارروائی کی جا سکے۔ امریکی حکومت کے افسران کی کوشش ہے کہ وہ افغان پناہ گزینوں کی آبادکاری کے عمل کو سالوں کے بجائے ہفتوں یا مہینوں میں مکمل کرلیں۔
یہاں موجود افغان پناہ گزین بھی زندگی کو معمول پر گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغان خواتین کے ایک گروپ نے لبرٹی ولیج میں بیوٹی سیلون قائم کر لیا ہے جہاں گذشتہ ہفتے ہونے والی شادی کے لیے دلہن کو تیار کیا گیا تھا۔

شیئر: