Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’گوادر کو حق دو‘: سمندر میں آزادانہ نقل و حرکت اور بجلی و پانی کی فراہمی کا مطالبہ

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں جمعرات کو 'گوادر کو حق دو' کے عنوان کے تحت ایک بڑے عوامی جلسے کا انعقاد کیا گیا جس میں گوادر میں سیکورٹی فورسز کی غیر ضروری چیک پوسٹیں ختم کرنے، مقامی ماہی گیروں کو سمندر میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دینے، مچھلیوں کے غیر قانونی شکار روکنے اور پانی کی فراہمی سمیت گیارہ مطالبات کئے گئے۔
گوادر شہر کے وسط میں شہداء جیونی چوک پر منعقد ہونے والے جلسے میں ماہی گیروں، مزدوروں ، سماجی و سیاسی کارکنوں سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
جلسے کی قیادت گوادر سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکریٹری مولانا ہدایت الرحمان نے کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ماہ کی اندر مطالبات حل نہ ہوئے تو نومبر میں گوادر میں صوبے کی تاریخ کا بڑا دھرنا دینگے اور انتظامی مشنری کو جام کردینگے۔
 
مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا تھا کہ گوادر کے مقامی شہریوں کو گھر سے نکلنے کے بعد جگہ جگہ اس سوال کا جواب دینا پڑتا ہے کہ 'کون ہو، کہاں سے آرہے ہو اور کہاں جارہے ہو' . دن میں پانچ پانچ مرتبہ ہمیں خود کو پاکستانی ثابت کرنا پڑتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ گوادر بندرگاہ نے گوادر کے لوگوں کو کچھ نہیں دیا۔ اگر سیکورٹی کے نام پر تذلیل ترقی ہے تو یہ ہمیں قبول نہیں۔ 
ہدایت الرحمان بلوچ نے کہا کہ گوادر کے اصل مالک گوادر کے ماہی گیر اور یہاں کے مقامی لوگ ہیں ۔ اسلام آباد میں بیٹھ کر کہا جاتا ہے کہ گوادر ترقی کررہا ہے یہ کیسی ترقی ہے کہ عوام کو پانی مل رہا ہے اور نہ ہی بجلی، تعلیم اور روزگار ، سمندر میں مچھلی کے غیرقانونی شکار کرنے والی ٹرالر کو اجازت دے کر گوادر کی معیشت کو تباہ کردیا گیا ہے اورمقامی ماہی گیر نان شبینہ کے محتاج ہوگئے ہیں۔

حکومت کو مطالبات ماننے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی گئی ہے (فوٹو: ویڈیو گریب)

ان کا کہنا تھا کہ ماہی گیروں کو سمندر میں جانے سے پہلے کوائف کی جانچ پڑتال، انٹری کرانی پڑتی ہے ، ٹوکن لینا پڑتا ہے اب ایسا نہیں چلے گا اور انہیں سمندر میں جانے کی آزادی دینا ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ گوادر پورٹ پر کام کرنے والی چینی کمپنی گوادر کے نوجوانوں کے مقابلے میں غیر مقامی افراد کو روزگار اور اچھی تنخواہیں دیتی ہے۔ غیر مقامی شخص کو پچاس ہزار تنخواہ دی جاتی ہے تو گوادر کے رہائشی نوجوان کو صرف اٹھارہ ہزار ۔ یہاں کی نوکریوں پر پہلا حق مقامی لوگوں اور صوبے کے لوگوں کا ہے۔
سیاسی مبصرین اور صحافیوں نے ’گوادر کو حق دو‘ کے عنوان سے ہونے والے جلسے کو شہر کی تاریخ کا بڑا اور غیر روایتی اجتماع قرار دیا ہے۔
گوادر پریس کلب کے نائب صدر نور محسن کا کہنا ہے کہ یہ گوادر کی تاریخ کا بڑا اجتماع تھا اس سے پہلے 2003ء میں کئی قوم پرست جماعتوں نے ملکر بھی اتنا بڑا جلسہ نہیں کیا۔ گوادر جیسی کم آبادی والے شہر میں ہزاروں افراد سڑکوں پر اس لئے نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر ناراض ہیں اور ان کے عوام بنیادی اور سنگین مسائل کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ 

جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے گوادر کے مقامی افراد سے روا روکھے گئے سلوک پر احتجاج کیا (فوٹو: ویڈیو گریب)

نور محسن کے مطابق گوادر کے لوگوں نے بڑی تعداد میں غیر روایتی طور پر ایسی جماعت کے رہنماء کی اپیل پر اس جلسے میں شرکت کی جس کے پاس بلوچستان میں تاریخی طور پر کم عوامی حمایت حاصل رہی ۔ ایک غیر سیاسی  اور ماہی گیر گھرانے سے تعلق رکھنے والے مولانا ہدایت الرحمان کو خوف کی فضاء میں عوامی مسائل پر دو ٹوک انداز میں بات کرنے پر پذیرائی ملی ہے۔ 

گوادر سے تعلق رکھنے والےمحقق و لکھاری ناصر رحیم سہرابی نے ٹویٹ کیا کہ 'اگرعوام کی رائے اور قبولیت کو فیصلوں، پالیسیوں اور اقدامات کی کامیابی یا ناکامی کا پیمانہ مانا جائے تو جمعرات 30 ستمبر کا یہ اجتماع ضلع گوادر میں گذشتہ کئی سالوں میں کئے گئے کئی پالیسیوں ، فیصلوں اور اقدامات کے خلاف ویٹو ہے۔'
 

شیئر: