Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نسلی تعصب پر ٹیسلا کو سیاہ فام ملازم کو 13 کروڑ سے زائد ڈالر ادا کرنے کا حکم

ٹیسلا کی ایک افسر نے الزامات کی تردید کی ہے۔ فائل فوٹو: ان سپلیش
امریکی ریاست کیلیفورنیا کی ایک عدالت نے کارساز کمپنی ٹیسلا کو سیاہ فام سابق ملازم کو 13.70 کروڑ ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے امریکی میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کمپنی انتظامیہ پر الزام ہے کہ اس کی جانب سے اس شخص کے ساتھ ہونے والے نسلی پرستی کے واقعے کو نظرانداز کیا گیا۔
اووین ڈیئز کو ایک نوکریاں ڈھونڈنے والی ایجنسی کے ذریعے ٹیسلا کی فری مونٹ فیکٹری میں لفٹ آپریٹر کے طور پر نوکری دی گئی تھی۔
عدالت کے مطابق وہ وہاں جون 2015 سے جولائی 2016 تک رہے، جس دوران انہیں نسلی منافرت اور تلخ رویوں کا سامنا رہا۔
اپنے مقدمے میں اووین ڈیئز کا کہنا تھا کہ فیکٹری پر کام کرنے والے افریقی نژاد امریکی ملازمین، جن میں ان کا بیٹا بھی شامل تھا، کو نسل پرستانہ ناموں سے پکارا جاتا تھا اور توہین آمیز تصاویر دکھائی جاتی تھیں۔  
مقدمہ اووین ڈیئز، ان کے بیٹے ڈیمیٹرک اور ایک تیسرے ملازم نے درج کروایا تھا۔ جس میں یہ بھی بتایا گیا کہ شکایت کنندہ کو ایسی صورتحال کا سامنا تھا جیسے اسے ’جم کرو کے دور‘ کا سامنا ہو۔
واضح رہے کہ جم کرو اس دور کو کہا جاتا ہے جس میں 1877 سے 1950 کی دہائی کے دوران امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں نسل پرستانہ قوانین رائج تھے۔
اووین ڈیئز کے کیس میں عدالتی حکم نامے کے مطابق ٹیسلا نے ترقی پسند ہونے کا لبادا اوڑھ رکھا ہے جبکہ اصل میں وہاں افریقہ نژاد امریکی ملازمین کے ساتھ رجعت پسند اور توہین آمیز رویہ رکھا جاتا ہے۔
اووین ڈیئز نے کہا ہے کہ شکایت کرنے کے باوجود ٹیسلا نے نسل پرستانہ واقعات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

اووین ڈیئز ٹیسلا کی فری مونٹ شہر میں واقع فیکٹری میں کام کرتے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بلوم برگ نے اووین ذیئز کے وکلا میں سے ایک، لورینس اورگن، کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پیر کو سان فرانسسکو کی عدالت نے حکم دیا کہ ٹیسلا اووین ڈیئز کو تعزیراتی نقصان کے طور پر 13 کروڑ ڈالر اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنے کے لیے 69 لاکھ ڈالر ادا کرے۔
کیلیفورنیا سیول رائٹس لا گروپ کے لورینس اورگن نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ انہیں خوشی ہے کہ عدالت کو سچ نظر آیا اور انہوں نے اتنی بڑی رقم کا حکم دے دیا ہے کہ ٹیسلا کو اپنے نسل پرستانہ رویے درست کرنے ہوں گے۔
’یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ عدالت ٹیسلا کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے تیار ہے۔‘
لورینس اورگن نے اس بات پر اطمینان ظاہر کیا کہ دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک کو کہا گیا ہے کہ ’آپ اس طرح کے واقعات کو اپنی فیکڑی میں ہونے نہیں دے سکتے۔‘
عدالت کے حکم کے بعد ٹیسلا نے اپنے ہیومن ریسورس کی نائب صدر ویلری کیپرز کی جانب سے ایک بلاگ شائع کیا جس میں تمام الزامات کی تردید کی گئی ہے۔
تاہم اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ جب اووین ڈیئز ٹیسلا میں کام کرتے تھے اس وقت وہاں کے حالات اتنے اچھے نہیں تھے۔

شیئر: