پولیس نے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں کریک ڈاؤن کے دوران کم از کم 500 کشمیری شہریوں کو گرفتار کیا ہے۔
امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اتوار کو مقامی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ’خطے میں ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
کیا علی گیلانی کے بعد کشمیر کی مزاحمتی سیاست کا باب بند ہو گیا؟Node ID: 596681
گزشتہ ہفتے سری نگر شہر میں حملہ آوروں نے تین ہندو پنڈتوں اور ایک سکھ شہری کو قتل کر دیا تھا۔
شہریوں کے خلاف تشدد کے ان واقعات کی انڈیا کے حامی اور مخالف کشمیری سیاستدانوں نے مذمت کی ہے۔
مقامی پولیس نے کئی دہائیوں سے خطے میں انڈین حکمرانی کے خلاف لڑنے والے عسکریت پسندوں پر ان ہلاکتوں کا الزام عائد کیا ہے۔
عہدیداروں نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ تین دنوں میں وادی کشمیر میں 500 سے زائد افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا ہے، جن میں اکثریت سری نگر کے شہریوں کی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ دی ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف) نامی باغی گروپ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے گذشتہ ہفتے سات افراد کو گولی مار کر ہلاک کیا ہے جس کے بعد اس سال اس طرح کے حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 28 ہو گئی ہے۔
ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں سے 21 مسلمان تھے جبکہ سات کا تعلق ہندو اور سکھ اقلیتی برادریوں سے تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ ٹی آر ایف لشکر طیبہ نامی عسکری تنظیم کا مقامی محاذ ہے۔ یہ سیل اس وقت تشکیل دیا گیا تھا جب انڈیا نے 2019 میں ریاست کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کر دیا تھا اور اس کے بعد کئی ماہ تک بڑے پیمانے پر سکیورٹی اور مواصلاتی لاک ڈاؤن نافذ کیا تھا۔
کشمیر میں اس وقت سے تشویش کی فضا برقرار ہے جب سے انڈین حکام نے وہاں کئی ایسے نئے قوانین بھی متعارف کرائے ہیں جن کی وجہ سے ناقدین اور بہت سے کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ ان کی مدد سے انڈیا کشمیر کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔
پچھلے ہفتے کی ہلاکتوں نے کشمیر میں بسنے والی اقلیتی برادریوں میں بڑے پیمانے پر خوف پیدا کیا ہے اور اس کے نتیجے میں کئی ہندو خاندانوں نے مسلم اکثریتی وادی کشمیر چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تشدد کی نئی لہر کا نشانہ کون بنا؟
ہلاک ہونے والوں میں ایک ممتاز کشمیری ہندو کیمسٹ، ہندو اور سکھ مذاہب سے تعلق رکھنے والے دو سکول ٹیچرز، اور انڈیا کی مشرقی ریاست بہار کا ایک ہندو خوانچہ فروش شامل ہے۔
پولیس کے مطابق کریک ڈاؤن میں حراست میں لیے گئے افراد میں مذہبی گروہوں کے ارکان، انڈیا مخالف کارکن اور ’زیر زمین رہ کر کام کرنے والے‘ افراد شامل ہیں۔
’اوور گراؤنڈ ورکرز‘ کی اصطلاح انڈین حکام عسکریت پسندوں کے ہمدردوں اور تعاون کرنے والوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ یہ ہمالیائی خطہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہے۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں حریف طاقتیں اس کی مکمل ملکیت کا دعویٰ کرتی ہیں۔
کشمیر کے انڈیا کے زیر کنٹرول حصے میں باغی 1989 سے نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ زیادہ تر مسلمان کشمیری دو ممالک کے درمیان منقسم ریاست کو متحد کرنے کے موقف کی حمایت کرتے ہیں چاہے متحد ریاست پاکستان کی ماتحت ہو یا ایک آزاد ملک کے طور پر قائم ہو۔