Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیب آرڈیننس اور احتساب کا مستقبل: ماریہ میمن کا کالم

نئے آرڈیننس کے مطابق موجودہ سمیت ہر چیئرمین نیب کو ایک بار عہدے کی میعاد میں توسیع دی جا سکے گی۔ (فوٹو: نیب)
نیب قانون میں تبدیلی کے لیے حسبِ توقع حکومت ایک آرڈیننس لے کر آئی ہے مگر اس آرڈیننس کا دائرہ توقعات سے کافی وسیع ثابت ہوا ہے۔
آرڈیننس کی فوری ضرورت چیئرمین نیب کی تعیناتی یا توسیع کے لیے تھی۔ چونکہ قانون کے مطابق چیئرمین کی تعیناتی کے لیے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت درکار تھی اور اس وقت موجودہ قانون میں توسیع کی بھی گنجائش نہیں تھی اس لیے حکومت کو قانون میں تبدیلی کی ضرورت تھی۔
عہدے کی مدت آٹھ اکتوبر کو ختم ہو رہی تھی اس لیے آرڈیننس ہی واحد راستہ تھا۔
آرڈیننس البتہ صرف چیئرمین کے عہدے تک محددو نہیں بلکہ اکیس صفحات اور درجن بھر شقوں پر مشتمل ہے۔ تکنیکی تفصیل کے بغیر اگر اس کے چیدہ چیدہ نکات پر غور کیا جائے تو یہ ترامیم ریلیف کی ترامیم ہی کہلائیں گی۔ 
کاروباری طبقے کو اس میں بنیادی ریلیف ملا ہے کیونکہ نیب کے پہلے سے موجود ( نئی ترامیم فوری طور پر نافذالعمل ہیں) دفعہ چار میں اس کا دائرہ کار تمام اشخاص تک تھا مگر اب پرانی  مختصر دفعہ چار کی جگہ ایک بھر پور اور وسیع شق کو لایا گیا ہے جس کے مطابق مختلف قسم کے اشخاص اس سے مبرا ہوں گے۔
نئی شق کے مطابق نیب کے قانون کا اطلاق سرکاری عہدہ رکھنے والوں پر ہوگا اور وہ اشخاص یا ادارے جن کا سرکاری عہدہ داروں سے تعلق نہیں ہو گا وہ نیب قانون کی زد میں نہیں آئیں گے۔
کاروباری افراد کے لیے یہ ایک بڑا ریلیف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پہلے نیب کی سزا کے دس سال تک قرضہ نہ لینے کی شرط تھی وہ بھی ختم کر دی گئی ہے۔ مزید معاشی اور کاروباری اداروں کے خلاف کارروائی کو سٹیٹ بینک کی اجازت سے مشروط کر دیا گیا ہے۔
کاروباری طبقے کے لیے اگر ریلیف ہے تو سرکاری افسروں کے لیے بھی امید ہے۔ اب صرف ان سرکاری افسروں کی خلاف کارروائی ہو سکے جن پر واضح اور براہ راست مالی فائدہ لینا ثابت ہوگا۔ 

چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نئے چیئرمین کے تعینات ہونے تک اپنے عہدے پر رہیں گے۔ (فائل فوٹو)

ترقیاتی سکیموں اور منصوبوں میں کوئی بھی بے ضابطگی ہو وہ تو اس پر بھی کارروائی نہیں ہو گی اور اگر سرکاری عہدے دار فیصلہ سازی میں کوئی مشورہ یا رائے دے گا تو اس پر بھی نیب کا اطلاق نہیں ہوگا۔ ٹیکس اور ریفنڈز کے معاملات چاہے مقامی ہوں، صوبائی یا وفاقی کسی پر نیب کا اختیار نہیں ہوگا۔
کاروباری افراد اور سرکاری افسروں کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں کے لیے بھی سہولت ہے کہ کابینہ یا اس کی کمیٹیاں اور اس کے ساتھ سرکاری اخراجات اور منصوبہ بندی کے ادارے جن میں بڑے بڑے منصوبے منظور ہوتے ہیں وہ بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر ہوں گے۔
چونکہ نیب قانون میں سرکاری عہدہ رکھنے والوں میں سرکاری افسر اور سیاستدان دونوں شامل ہیں اس لیے سیاست دانوں کے فیصلے یا سرکاری رائے پر اس وقت تک سوال نہیں ہوگا جب تک یہ ثبوت نہ مل جائیں کہ اس میں انہوں نے براہ راست مالی فائدہ حاصل کیا ہے۔
اس کے ساتھ کافی عمومی ریلیف بھی ہیں۔ مثلا پہلے نیب کی عدالت خود قانون کے مطابق ضمانت نہیں دے سکتی تھی اور ضمانت پر رہائی صرف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے ہوتی تھی۔
اب مقدمہ سننے والی عدالت کو ہی ضمانت کا اختیار ہوگا۔ اس کے ساتھ نیب میں چلنے والی انکوائریاں اور تفتیشیں جن پر نئی ترامیم کا اطلاق ہوگا وہ فوری طور پر دیگر مجاز اداروں میں منتقل ہوں جائیں گی۔
چونکہ اس ترمیم میں عدالت میں چلنے والے مقدمات کا ذکر نہیں اس لیے موجودہ زیر سماعت مقدمات بدستور پرانے جرائم کے تحت ہی چلتے رہیں گے۔ مگر یہ واضح ہے کہ اگر یہ آرڈیننس پارلیمان سے منظور ہو گیا تو واضح طور پر نیب کی سرگرمیوں اور اگلے کیسز میں کمی نظر آئے گی۔ 

وفاقی کابینہ نے نیب کے آرڈیننس میں ترامیم کی منظوری دی تھی۔ (فوٹو: اے پی پی)

  چیئرمین کی مجوزہ ترمیم بھی اس آرڈیننس میں موجود ہے اور اس کے مطابق اب چیئرمین دوبارہ چار سال کے لیے بھی تعینات ہو سکتا ہے۔ مگر اس میں بھی اس کی تعیناتی کو اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم کی مشاورت کی ناکامی کی صورت میں بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی کی منظوری سے مشروط کیا گیا ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن کے برابر نمائندگی ہے۔ اس کا مطلب ہے وہاں بھی اگر اپوزیشن ساتھ ہوئی تب ہی چیئرمین منتخب ہو سکے گا اس لیے ابھی چونکہ وزیراعظم  کی طرف سے مشارت کو رد کیا گیا ہے اس لیے موجودہ چیئرمین کی تعیناتی اب پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائے گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیب چیئرمین کے لیے مخصوص ترمیم کا دائرہ کار اتنا بڑھ کیسے گیا ؟ سوال یہ بھی ہے کہ ان ترامیم کے پی ٹی آئی کے احتساب کے ایجنڈے کے لیے آگے کیا مضمرات ہوں گے؟
اس میں بھی دو رائے نہیں کہ نیب کی کارروائی کے حوالے سے کاروباری طبقے اور افسر شاہی میں تحفظات پائے جاتے تھے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ اس قانون میں ضمانت اور دیگر شقوں پر قانونی ماہرین کے بھی تحفظات رہے ہیں۔
چیئرمین نیب کی دوبارہ تعیناتی کو چھوڑ کر غالباً باقی شقوں پر شاید اپوزیشن کو بھی اعتراض نہ ہو بلکہ وہ ان اختیارات کو اور کم کرنے کی بات کریں جو وہ پہلے بھی کرتے رہے ہیں۔

نئے آرڈیننس کے تحت تمام جرائم ناقابل ضمانت ہوں گے۔ (فوٹو: فری پک)

سوال ہے مگر حکومت کی پالیسی کا۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ موجودہ حکومت نے ہر فورم پر احتساب اور نیب کے اختیارات کا دفاع ہی کیا ہے۔ اب یہ ترامیم تو حکومت کی اپنی طرف سے بطور آرڈیننس آئی ہیں۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ابھی اپوزیشن کی طرف سے ترامیم آنا باقی ہیں۔ اگر پارلیمان میں کچھ لو اور دو کے ساتھ یہ آرڈیننس پاس ہوتا ہے تو پھر نیب کا دائرہ کار مزید ہی کم ہوتا نظر آتا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اس میں اپوزیشن بلکہ حکومت کے اتحادیوں کی کیا حکمت عملی ہوگی؟ کیا وہ اس قانون کو پاس نہیں ہونے دیں گے جس کے کے نتیجے میں چیئرمین نیب کو تو توسیع نہیں ملے گی مگر نیب کا قانون اصل حالت میں واپس آ جائے گا یا پھر وہ اس قانون کو منظور کریں گے اور اس کے ساتھ چیئرمین نیب پر بھی اتفاق ہو جائے گا۔
ہر دو صورتوں احتساب کا وہ نعرہ اور صورت جو پی ٹی آئی نے دکھائی تھی اس سے صورتحال دور جاتی نظر آتی ہے۔ 

شیئر:

متعلقہ خبریں