Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم: پی ڈی ایم کے بعد!

پیپلز پارٹی اور اے این پی حکومت مخالف تحریک پی ڈٰی ایم سے علیحدہ ہو چکی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پی ڈی ایم کا سفر اپنے جوش و خروش اور بلند بانگ دعوؤں سے بھرپور آغاز اور اس کے بعد مختلف مراحل سے ہوتا ہوا اپنے اختتام کی طرف تیزی سے بڑھا رہا ہے۔ اس لیے اب سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے بعد پاکستان میں اپوزیشن کی نوعیت کیا ہوگی؟
ویسے تو پی ڈی ایم کے کراچی کے جلسے سے پہلے ایک بیٹھک بھی ہوئی مگر نہ میٹنگ کا کوئی اثر آیا اور نہ ہی آگے حالات خاص حوصلہ افزا نظر آتے ہیں۔
ان سطور کے چھپنے تک کراچی کا جلسہ اختتام کو پہنچ چکا ہوگا مگر سیاسی میدان میں کسی ہلچل کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شہباز شریف صاحب کی تقریر سنی سنائی ہے، مریم نواز ویڈیو لنک پر ہیں اور تمام ذمہ داری مولانا فضل الرحمان کے کندھوں پر ہے جن کے کارکنوں کی جلسے میں اکثریت نظر آرہی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ آخر اپوزیشن کے حالات اس نہج تک کیسے پہنچے؟
پی ڈی ایم کا سفر ابتدائی جوش و خروش اور کچھ انتخابی فتوحات کو چھوڑ کر مائنس کی ایک داستان ہے۔ پی ڈی ایم سے اے این پی اور پی پی پی مائنس ہوچکیں۔ اب مریم نواز اور نواز شریف  یا ان کی سوچ بھی تقریباً مائنس ہو رہی ہے۔
پی ڈی ایم کے اہداف بھی بتدریج مائنس ہوئے ہیں۔ پہلے لانگ مارچ مائنس ہوا اور اس کے بعد استعفے بھی مائنس ہو گئے۔ ایک طرف سے سینیٹ میں عدم اعتماد مائنس ہوئی اور دوسری طرف پنجاب اسمبلی میں تبدیلی کا ارادہ مائنس ہوا۔
الیکشنز میں انتخابی اتحاد تو بہت پہلے مائنس ہو چکا تھا۔ اس لیے گلگت بلتستان اور کشمیر میں بھی آپسی مقابلہ ہوا اور کراچی کے ضمنی انتخاب میں تو بات ایک دوسرے پر الزامات تک جا پہنچی۔ پی ڈی ایم کا بیانیہ بھی مائنس کے سفر میں ہے۔ شہباز شریف ترقی کے لیے آبدیدہ ہیں اور مریم نواز ووٹ کی عزت کے لیے سرگرداں۔ بیچ میں مولانا اپنی موجودگی کا احساس دلانے تک ہی رہ گئے ہیں۔  
پی ڈی ایم میں اب دو نمایاں پارٹیاں ہیں، جے یو آئی ایف اور ن لیگ، یہی دو پارٹیاں گویا حقیقی اپوزیشن بشمول احتجاج کی سیاست کرنا چاہتی ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کا مقصد ہے حکومت کو گرانا یا کم از کم ٹف ٹائم دینا۔

مریم نواز پی ڈی ایم کے جلسوں میں کافی متحرک رہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ن لیگ کے سربراہ ہیں شہباز شریف۔ وہ خود پی ڈی ایم کے اہداف سے کتنے مطمئن ہیں اس کی ابھی تک وضاحت نہیں ہو سکی۔ شہباز شریف کی عملی قیادت میں حکومت کو کتنا ٹف ٹائم ملے گا، اس کے بارے میں بھی پیشین گوئی کرنا زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔ مولانا خود کبھی کبھی سخت لہجے کے بعد جلدی ہی میانہ روی کی طرف واپس آجاتے ہیں۔ بیانیہ یا لہجہ ایک طرف، جلسوں میں لوگوں کی دلچسپی کا بھی پہلے جیسا معیار نہیں خصوصاً جب مریم نواز بذات خود موجود نہ ہوں۔ 
ان حالات میں پی ڈی ایم کے جلسے اور دیگر سیاسی سرگرمیوں کا مقصد ایک رسمی کارروائی کے علاوہ زیادہ کچھ نہیں۔ شہباز شریف اپنی انتظامی صلاحیتوں کی تشہیر اور سندھ میں اپنے موجودگی کا احساس دلانے کے لیے متحرک ہوئے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ سندھ میں پارٹی قیادت کے اختلافات اور مفتاح اسماعیل کے استعفے کے بعد کارکنوں کو اکٹھا کرنا بھی ان کے پیش نظر ہو گا۔ مولانا فضل الرحمان بھی ایک تنظیمی ریہرسل اور کچھ تقریروں کی حد تک ہی جانا چاہیں گے۔ پارلیمنٹ میں نہ ہونے کی وجہ سے جلسے ان کے سیاسی میدان میں ان رہنے کا واحد ذریعہ ہیں۔ 

’شہباز شریف ترقی کے لیے آبدیدہ ہیں اور مریم نواز ووٹ کی عزت کے لیے سرگرداں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان حالات میں اپوزیشن اور اس کے ذمہ دار اس وقت یقیناً پی ڈی ایم کے بعد کے بارے میں سوچ رہے ہوں گے ۔ اپوزیشن میں بھی زیرک سیاست دانوں کی کمی نہیں۔ ان کو بھی پی ڈی ایم کا نوشتہ دیوار نظر آرہا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کی کارکردگی پر سوالات اور ان کے دعوے اپنی جگہ، سیاسی طور پر ان کو اپوزیشن سے ان حالات میں خطرہ نہیں۔
ان کے اندرونی مسائل بدستور ہیں مگر کمپرومائز کرکے پی ٹی آئی نے ان مسائل کو بھی فی الحال کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔ اپوزیشن یا بچی کچھی پی ڈی ایم کی کڑی ن لیگ کے ہاتھ میں ہے اور ن لیگ کا اپنا حال پی ڈی ایم جیسا ہی ہے۔
احتجاج اور مصلحت کے درمیان تقسیم میں کم از کم دو دھڑے تو واضح ہیں۔ پی ڈی ایم کے بعد گیند اب نواز شریف کے ہی کورٹ میں ہے جہاں سے پیغام اور ارادے سکون کے ہی نظر آتے ہیں۔ سیاست میں حالات بدلتے دیر نہیں لگتی مگر فی الحال اپوزیشن کے لیے بھی سکون ہی ہے۔

شیئر: