Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فوڈ سیکیورٹی وژن 2030 کا بڑا مقصد خوراک کا ضیاع روکنا

ضرورت مندوں کی مدد کے لیے فوڈ بینکوں کا مزید قیام عمل میں آنا چاہیے۔ (فوٹو عرب نیوز)
خوراک کا ضیاع مملکت کے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے جو فوڈ سیکورٹی کے لیے اہم خطرہ ہے۔  دیگر تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہاں200 تا 500 کلو خوراک فی کس  کے حساب سے ضائع ہوتی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق سعوودی  وژن 2030 کے اہم مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کھانے کے ضیاع کو روک کر فوڈ سکیورٹی کی حکمت عملی کو نافذ کیا جائے۔
خوراک کو محفوظ رکھنے کے لیے دنیا بھر میں ہر سال 16 اکتوبر کو ورلڈ فوڈ ڈے منایا جاتا ہے۔ یہ دن 1945 میں قائم کی گئی اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی یاد میں منایا جاتا ہے، جس کا مقصد پوری دنیا سے بھوک مٹانا ہے۔

خوراک کی تنظیم کے مطابق خوراک کا تقریبا 33 فیصد ضائع ہوتا ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)

نومبر1979 میں ہنگری کے سابق وزیر زراعت ڈاکٹر پال رومنی کی قیادت میں ایک وفد نے اس دن کو دنیا بھر میں منانے کا مشورہ دیا تھا۔
اس کے بعد سے ہرسال 150سے زائد ممالک میں خوراک کے مسائل پر بات کی جا رہی ہے تاکہ غربت اور بھوک کے متعلق مسائل پر شعور بیدار ہوسکے۔
کنگ سعود یونیورسٹی کے شعبہ بائیو کیمسٹری میں ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر اور سعودی جرنل آف بائیولوجیکل سائنس اینڈ فرنٹیئرز آف اوفتھلمولوجی کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر محمد شمس  کا کہنا ہے کہ یہاں کی بارانی  زمینیں اور پانی کے کم ذرائع بڑے پیمانے پر زراعت کے لیے رکاوٹ کا باعث ہیں۔
اس لیے فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے دیگر کوششیں کی جانی چاہئیں جیسا کہ  فوڈ سسٹم کو بڑھانا ، فوڈ سیفٹی کو بہتر بنانا، خوراک کا ضیاع  کم کرنا ، خوراک کے اخراجات کم کرنا ، غربت کو دور کرنا   اور صحت مند غذا کو فروغ دینا۔ 
اعدادو شمار سے پتہ چلا ہے کہ سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں تقریباً ایک تہائی خوراک ضائع ہو جاتی ہے۔
محمد شمس نے مزید  بتایا کہ اس سے ملکی اکانومی کافی متاثر ہوتی ہے اور یہ عالمی غذائی تحفظ کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

مملکت میں82،653 ضرورت مند خاندانوں کو خوراک کے پیکٹ دیئے گئے۔ (فوٹو عرب نیوز)

2019 میں سعودی خوراک کی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق کل خوراک کا تقریبا 33 فیصد حصہ ضائع جاتا ہے جو کہ سالانہ 12،980 ملین سعودی ریال مالیت کے برابر ہے۔  اس میں سے زیادہ تر  ریٹیلرز اور صارفین کی سطح پر  خوراک ضائع ہوتی ہے۔
مملکت کی مہمان نوازی، تہواروں اور سماجی تقریبات میں منصوبہ بندی کے فقدان  اور بڑی مقدار میں کھانا پیش کرنا  بھی ضیاع کا بڑا سبب ہے۔
محمد شمس نے وضاحت کی کہ اکثر لوگ ریسٹورنٹس میں کھانے کا آرڈر زیادہ کر دیتے ہیں لیکن اسے پورا کھانا ختم نہیں کرتے جس کے باعث بچا ہوا کھانا ضائع ہو جاتا ہے۔
بھوک کے عالمی بحران کے پیش نظر کھانا ضائع کرنا قدرتی وسائل کا ضیاع ہے جو ا یکوسسٹم اور بائیو ڈائیورسٹی کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔

 150سے زائد ممالک میں خوراک کے مسائل پر بات کی جا رہی ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)

پروفیسر کا کہنا ہے کہ صارفین کو ہمیشہ اپنے منصوبے کے مطابق کھانا خریدنا چاہیے، ذخیرہ کرنے کے بہتر طریقے اپنانے چاہئیں اور بچ جانے والے کھانے کو ری سائیکل کرنا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ فوڈ  اینڈ  ایگر کلچر آرگنائزیشن اور دیگر حکومتی ادارے کھانے کا  ضیاع کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اگاہی کو فروغ دیا جاسکے اور قانون کی منظوری دی جائے۔
چیریٹی گروپوں اور فوڈ بینکوں کا مزید قیام عمل میں آنا چاہیے تاکہ  ضرورت مند افراد  کی مدد کی جاسکے۔
انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں ہزاروں فوڈ بینک بنائے گئے ہیں۔ بشمول سعودی عرب میں ایک تنظیم عطام نے30 نومبر 2020 تک مملکت میں 82،653 ضرورت مند خاندانوں کو 100،464خوراک کے پیکٹ کامیابی سے دیئے ہیں۔
خوراک کے عالمی دن کے موقع پر دنیا بھر میں بھوک کے بحران اور اس کی وجوہات کے بارے میں آگاہی بڑھانا اور اس سے جڑے  مسائل کا حل تلاش کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
 

شیئر: