Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’طالبان ہمیں پُرامن ماحول میں ماؤں اور بچوں کی مدد کرنے کی اجازت دیں‘

طالبان نے ابھی تک ایسے کوئی نئے قوانین لاگو نہیں کیے ہیں جو ’مڈ وائفری کالج‘ کے کام کو متاثر کرسکے (فائل فوٹو: یونیسیف افغانستان ٹوئٹر)
افغانستان میں حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کی صحت کے لیے قائم کیے گئے کالج میں کام کرنے والی اساتذہ نے کھڑکیوں کے پیچھے چھپ کر خود کو گولیوں سے بچاتے ہوئے اپنے آخری تربیتی مرکز کو دھماکے سے اڑتے دیکھا۔
تاہم وہ دیہی علاقے میں ماؤں اور بچوں کی صحت کے لیے اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اب جب طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا ہے تو اس مرکز کی انتظامیہ نئی حکومت سے انہیں پُرامن طریقے سے کام جاری رکھنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
شفیقہ بیرونی نامی ایک ٹیچر نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں انسانیت اور حب الوطنی کے جذبے کے تحت اپنی ملازمت کرتی ہوں اور اس لیے بھی کیونکہ مجھے اپنی کمیونٹی اور ہمارے معاشرے کے پِسے ہوئے طبقے یعنی خواتین اور بچوں کی خدمت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ طالبان خواتین کو دوسری خواتین کی مدد کرنے کے لیے ایک محفوظ جگہ فراہم کریں۔‘
افغان صوبے وردک کے دارالحکومت میدان شر میں قائم حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کی صحت کے تربیتی مرکز سے آئندہ سال مئی 2022 میں 25 طلبہ گریجویٹ ہوں گے۔ اس دو سالہ پروگرام کو ملک میں بدامنی اور کورونا کی وبا کی وجہ سے روک دیا گیا تھا۔

میدان شر میں قائم حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کی صحت کے تربیتی مرکز سے آئندہ سال مئی میں 25 طلبہ گریجویٹ ہوں گے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

طالبان اور سابقہ حکومت کے درمیان شدید لڑائی کے دوران یہ سکول بھی فائرنگ کی زد میں آیا تھا جس کی وجہ سے اساتذہ اور طلبہ نے خود کو آہنی دروازوں کے پیچھے چھپایا تھا۔
تربیتی کورس کے ڈائریکٹر خاتول فاضلی نے بتایا کہ ’یہ ایک مشکل کام ہے، یہاں ہر روز جنگ ہوتی ہے۔‘
افغانستان کے نئے حکمرانوں نے ابھی تک ایسے کوئی نئے قوانین لاگو نہیں کیے ہیں جو ’مڈ وائفری کالج‘ کے کام کو متاثر کرسکے۔
ہیلتھ ورکرز کی طرح دائیوں کو بھی جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ یہ ہے کہ انہیں افغانستان کا بینکنگ نظام غیرفعال ہونے کی وجہ سے گذشتہ چار ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔

شیئر: