یہ بات روس نے گزشتہ ہفتے طالبان حکومت کے ارکان کی بین الاقوامی مذاکرات کے لیے میزبانی کے بعد کی۔ ان مذاکرات کے دوران طالبان نے علاقائی سلامتی پر روس، چین اور ایران کے ساتھ مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
پیر کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے افغانستان کے لیے روسی صدارتی ایلچی ضمیر کابلوف نے کہا کہ یورپی یونین ملک میں اپنا مشن دوبارہ کھولنے کا حق رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یورپی شراکت داروں کو افغانستان چھوڑنا نہیں چاہیے تھا۔ یہی وقت تھا کہ جب یورپی سفارت کار افغانستان میں واپس آتے۔
انہوں نے مغربی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان میں انتشار سے بچنے کے لیے طالبان کے ساتھ رابطے میں رہیں اور خبردار کیا کہ امداد میں کمی کی کوششیں ’غلط نتائج کی حامل‘ ہوں گی۔
کابلوف نے نیٹو فوجیوں کے پیچھے چھوڑے گئے ’بھاری مقدار میں ہتھیاروں‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ افغانستان میں لوگ زندہ رہنے کی کوشش میں منشیات کی سمگلنگ، دہشت گردی اور اسلحہ کی سمگلنگ کا سہارا لے سکتے ہیں۔
ضمیر کابلوف نے افغانستان کے لیے فنڈنگ پر پابندی ہٹانے کے لیے روس کے مطالبات کو بھی دہرایا۔
واضح رہے کہ افغانستان کے اربوں ڈالر کے ذخائر مغربی ممالک کے بینکوں میں منجمد کر دیے گئے ہیں تاکہ اگست کے وسط میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے والے طالبان وہ رقم حاصل نہ کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ بالکل اشتعال انگیز ہے۔ وہ کس کو سزا دے رہے ہیں، افغان حکام کو یا وہاں کے لوگوں کو؟ پیسے افغان عوام کو واپس کرنے چاہئیں۔‘
بین الاقوامی امداد بندش، خوراک کی قیمتوں میں اضافے اور بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ افغانستان کی معیشت انتہائی خراب حالت میں ہے۔
کابلوف نے کہا کہ روس ’آنے والے دنوں میں‘ افغانستان میں مزید انسانی امداد بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے لیکن اس نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔